دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طالب علموں کی تحریک کو حمایت دینے آج شام یہاں پہنچے اور اس دوران انہوں نے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ اس قانون میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ یا تو مسلمانوں کو اس میں شامل کرنا چاہئے یا سب کو ہٹا دینا چاہئے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر نجیب جنگ نے کہا کہ اس قانون میں سب کو شامل کرنے والا بنایا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ 'ملک کے مختلف حصوں میں لاکھوں لوگ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے ہیں اس لئے حکومت کو اس میں شامل لوگوں سے بات چیت کرنی چاہئے۔ تبھی کوئی حل نکلے گا۔ اگر ہم بات نہیں کریں گے تو حل کیسےنکلے گا؟ اس کے خلاف مخالفت کب تک جاری رہے گی؟ معیشت کو نقصان ہو رہا ہے، دکانیں بند ہیں، بسیں نہیں چل رہی ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'جامعہ کی زمین پر مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، خان عبدالغفار خان اور ذاکر حسین جیسی شخصیات کے قدموں کے نشانات ہیں اس لئے اسے آسانی سے روندا نہیں جا سکتا ہے'۔
جنگ نے کہا کہ 'لوگوں کو تقسیم کرنے والے قانون کے خلاف لڑائی کی تاریخ جامعہ نے لکھی ہے اور اچھی بات ہے کہ یہ تحریک یہاں چل رہی ہے۔ اس تحریک سے یہاں کے طالب علموں اور شاہین باغ کی بہنوں نے دکھا دیا کہ ان میں کتنا دم ہے'۔
انہوں نے طالب علموں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ اپنی تحریک مولاناؤں سے دور رکھیں۔ مولانا حضرات کو مدارس میں بیٹھے رہنے دیں کیونکہ آپ کے مستقبل کا سوال ہے تو آپ کو ہی قیادت کرنی پڑے گی'۔
دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ نے کہا کہ 'حکومت لوگوں کو تقسیم کرنے کے لئے شہریت جیسا قانون لے کر آئی ہے لیکن سب سے اچھی بات ہے اس نے ملک کے باشندوں کو متحد کر دیا ہے اور تمام مذاہب ،فرقہ کے لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں'۔
سابق لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ 'ہمیں نوکری اور اسپتال چاہئے۔ ہمیں این پی آر نہیں چاہئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ این آر سي ہونے نہیں جا رہا ہے لیکن لوگوں نے ان پر اعتماد نہیں کیا یہ ہمارے لئے اور حکومت کے لیے شرم کی بات ہے۔ حکومت کی باتوں پر لوگوں نے اس لئے یقین نہیں کیا کیونکہ آسام اور کرناٹک میں حراستی مراکز (ڈٹیشن سینٹر) قائم ہیں اور ممبئی میں بھی بنائے جانے کا منصوبہ ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پانچ جنوری کو جس طرح کے واقعات پیش آئے وہ جمہوریت اور ملک کے لئے شرمناک ہیں۔
نجیب جنگ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی کارروائی کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے رجسٹرار نے پولیس کو کیمپس میں بلایا اور پولیس نے ہاسٹل میں گھس کر بے دردی سے طالب علموں کی پیٹائی کی'۔
جنگ نے آخر میں طالب علموں سے یہ وعدہ لیا کہ وہ اس تحریک کو سیکولر رکھتے ہوئے اسے تب تک جارہی رکھیں گے جب تک سی اے اے اوراین آر سی کو حکومت واپس لینے کا اعلان نہیں کر دیتی ہے'۔
واضح رہے کہ جامعہ میں شہریت قانون، این آر سي اور 15 دسمبر کی پولیس کی کارروائی کے خلاف ایک ماہ سے زیادہ تحریک جار ی ہے۔