علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم شرجیل عثمانی کے خلاف مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے، پونے بی جے پی یووا مورچہ کے ریجنل سیکریٹری پردیپ گاوڑے کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
شرجیل نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ 'جو لوگ قتل اور تشدد کرتے ہیں یا ہجومی تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں، قتل کرنے کے بعد اجب اپنے گھر جاتے ہیں تو کیا کرتے ہوں گے؟ کیا وہ کسی نئے طریقے سے ہاتھ دھلتے ہوں گے، کچھ دوا ملا کر نہاتے ہوں گے، کیا کرتے ہیں یہ لوگ کہ واپس آکر ہمارے بیچ میں اٹھتے ہیں بیٹھتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، فلمیں بھی دیکھنے جاتے ہیں، پھر کسی اور کو پکڑتے ہیں پھر قتل کر دیتے ہیں، پھر عام زندگی گزارتے ہیں، وہ آگے کہتے ہیں کہ ' وہ اپنے اہل خانہ سے محبت بھی کرتے ہیں۔ گھر میں باپ کا پیر بھی چھوتے ہیں۔ مندر میں پوجا بھی کرتے ہیں، لیکن پھر باہر آکر یہی کرتے ہیں۔ سرراہ کسی کی جان لے لینی اور اس کو اس طریقے سے عام کر دیا جانا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، حیران کن ہے۔ ہجومی تشدد کے معاملے بڑھتے جا رہے ہیں اور اس پر معاشرے میں خاموشی ہے، یہ خاموشی خطرناک ہے۔'
وہیں بی جے پی نے بھی شرجیل عثمانی کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے، بی جے پی نے کہا ہے کہ اگر شرجیل عثمانی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو اس کے خلاف مظاہرہ کریں گے۔
ریاست کے سابق وزیر اعلی دویندر فڈنویس نے اس سلسلے میں ادھو حکومت کو ایک مکتوب بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے شرجیل عثمانی کو گرفتار کرنے کی مانگ کی ہے۔