ہاویستو جو چار روزہ بھارت کے دورے پر تھے جس کے دوران انہوں نے بدھ کے روز وزیر برائے امور خارجہ ایس جے شنکر سے بات چیت کی تھی۔ وہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے بعد یورپی یونین ملک سے دوسرے رہنما ہیں جنہوں نے بھارت میں کشمیر کی صورتحال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیاہے۔
ہاویستو نے کہا کہ 'کشمیر کے مدعے کو لے کر جے شنکرکے ساتھ ستمبر میں ہیلسنکی اور بدھ کے دن بھی بات چیت ہوئی اور فن لینڈ نے سیاستدانوں کی طویل عرصے سے نظربندی ، انسانی حقوق ، خطے میں لوگوں کی حفاظت کے حوالے سے اور وہاں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔'
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا: 'ہم نے بھارت کی طرف سے کشمیر میں لیے گئے اقدامات کی وضاحت سنی ہے لیکن یقیناً کشمیر کی صورتحال پائیدار نہیں ہے۔'
5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر نے کے بعد ستمبر میں یورپی یونین کی طرف سے کشمیر میں عائد پابندیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
ہاویستو نے کہا کہ انہوں نے جے شنکر کو بتایا تھا کہ 'بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کے مبصرین یا نئی دہلی کے سفارتی کور کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے اور ان خدشات کا جائزہ لیا جاسکے جس کے تعلق سے کچھ لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اس سے عالمی برادری کا اعتماد بڑھانے میں مدد ہوگی۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے لئے کیونکہ اطلاعات کے بہت سارے ذرائع موجود ہیں اور چونکہ آپ کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں جو صورتحال کے چشم دید گواہ ہیں اور جو اس کے بارے میں بتاسکتے ہیں- اس لئے ہمیں بھی بین الاقوامی مبصرین کے امکان پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے مبصرین اور دیگر افراد کو اپنا کام انجام دینے اور غیر جانبدارانہ نظروں سے دیکھنے اور لوگوں سے ملنے کی اجازت ملنی چائیے'۔
اگرچہ حال ہی میں بھارت نے یوروپی پارلیمنٹ (ایم ای پی) کے 23 ممبروں کے ایک گروپ کو ، جن میں سے اکثریت دائیں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد تھے ان کو کشمیر جانے کی اجازت دی تھی، یورپی یونین نے اس دورے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
ہاویستو نے بھارت اور پاکستان کے مابین بات چیت کی ضرورت پر زور دیا انہوں نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں دونوں فریقین میں بات ہونی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ 'ہم اس مسئلےکو حل کرنے کے لئے بھات اور پاکستان کے مابین ممکنہ مذاکرات اور مشغولیت کی کسی اچھی خبر کے منتظر ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ عالمی برادری ہمیشہ مدد کے لئے موجود ہے لیکن یہ اقدام خطے سے آنے چاہیے۔'