ایران کے 1979 کے انقلاب کے رہنما اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی کا ہندوستان سے تعلق رہا ہے اور ان کے آباؤ اجداد بارہ بنکی سے تعلق رکھتے تھے۔
سن 1790میں آیت اللہ خمینی کے دادا سید احمد موسوی ہندی اترپردیش کے کِنتور گاؤں میں پیدا ہوئے جو سن 1858 کی کنتور جنگ کے لئے مشہور ہے۔
سن 1830 میں سید احمد موسوی، اودھ کے نواب کے ہمراہ ایران فرار ہوگئے اور بالآخر ایران کے دارالحکومت شہر سے 325 کلومیٹر دور خمین میں سکونت اختیار کی لیکن اس حقیقت کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا کہ وہ اصل میں ہندوستان سے تعلق رکھتے تھے۔
سن 1902میں آیت اللہ ایران کے خمین میں پیدا ہوئے اور اسلامی انقلاب کی رہنمائی کی۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کی طرح ایک عالم دین بن گئے۔ ان کے والد مصطفی ہندی خمینی کا مکان ایک اہم تاریخی یادگار بن گیا ہے۔
انہوں نے اسلامی تعلیم جاری رکھی اور ایران کے مختلف شہروں میں درس و تدریس کا عمل جاری رکھا۔ اسی دوران انہوں نے ملک کے متنازعہ سیاسی نظام (بادشاہی نظام) کی مخالفت کی اور اس کی جگہ ولایت فقہ نظام (شیعہ اسلام فقہ) کی حمایت کی۔
ایران کے آخری شاہ (شہنشاہ) محمد رضا پہلوی کے ذریعہ ان کی تعلیمات پر قدغنوں کے بعد انہیں سن 1960 کی دہائی کے وسط میں ایران سے جلاوطن کیا گیا۔ ملک سے بے دخل ہونے کے بعد بھی شاہ سے اس کا انحراف جاری رہا۔اُس وقت آیت اللہ کو ایرانی میڈیا میں ایک برطانوی ہندوستانی کٹھ پتلا کہا جاتا تھا۔
جب مذہبی رہنما 14 سال کی جلاوطنی کے بعد ایران واپس آئے تو لوگوں نے انہیں اپنا اعلی قائد مانا اور 1979 میں انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کا قیام عمل میں لایا۔
آیت اللہ امریکہ کے سخت مخالف اور اسلام کے متولی پیروکار تھے۔ اسی لئے انہوں نے 'نہ تو مشرق کے ساتھ اور نہ ہی مغرب کے ساتھ، صرف جمہوری اسلام کے ساتھ' اور'امریکہ میں طاقت نہیں ہے' جیسے دلائل استعمال کیے۔ وہ موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی کے استاد بھی تھے۔
سید کے انقلابی پوتے نے اسلامی جمہوریہ کے قیام کے 10 سال بعد 4 جون 1989 کو آخری سانس لی۔
اُن دنوں جب ایران اور امریکہ کے مابین جنگ جیسی صورتحال تھی یہ کہنا مشکل تھا کہ عالمی سطح پر ہندوستان کس کے ساتھ ہوگا۔ لیکن آیت اللہ کا تعلق ایران کی موجودہ حکومت اور ان کے والد کی اصل پیدائش اترپردیش کے ایک گاؤں سے ہونے کی وجہ سے یہ بات صاف ہے کہ ان کا ہندوستان سے گہرا اور جزباتی رشتہ رہا ہے۔