ETV Bharat / bharat

ہم سے بنے گا ملک مہان، ہم ہیں ملک کے کسان۔۔ - ہم ہیں ملک کے کسان۔۔

آزادی سے پہلے بھی کسانوں کی مشکلات کم نہیں تھیں، انتظامات بدستور بدلتے رہے ہیں لیکن کسانوں کی زندگی ایک پہیلی کی مانند نسل در نسل چلتی رہی ہے، انگریزوں نے کئی بار اس نظام کو تبدیل کیا۔ تب سے اب تک کسان مشکلات کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے ہیں، آئیے آزادی کے بعد سے کسانوں کی بڑی تحریک کو دیکھیں۔

a look at on history of farmer protest
a look at on history of farmer protest
author img

By

Published : Dec 23, 2020, 10:47 AM IST

Updated : Dec 23, 2020, 10:41 PM IST

کسان تحریک اس ملک میں کبھی مکمل تبدیلی نہیں لا سکی، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تعلیم سے دوری غریب کسانوں کو کبھی ان کے حق کے لیے کھڑا نہیں ہونے دیا۔ البتہ کسانوں کے نام بنے سیل کے محکموں کے ذریعے کسانوں کے نام پر نئے رہنما تیار ہوتے رہے اور ان کی سیاست چمکتی رہی۔

ویڈیو

کسانوں کی سب سے متاثر کن تحریک آج سے 23 برس قبل سنہ 1988 میں دہلی کے بوٹ کلب پر ہوئی تھی جس میں لاکھوں کی تعداد میں کسان ملک کی سیاست میں داخل ہو گئے، 14 ریاستوں کے قریب پانچ لاکھ کسانوں نے ایک ہفتے تک دہلی کا محاصرہ کیا، اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت کو کسانوں کے سامنے جھکنا پڑا، سال 1988 کے بعد لیبرلائزیشن کے دور میں یوں کسانوں کی کوئی بڑی تحریک تو نہیں ہوئی لیکن اکیسویں صدی کے اوائل دہائی میں ہوئے بھٹا پرسول گاؤں بدعنوانی نے سبھی کو حیران کر دیا، بھٹا پرسول گاؤں پر سیاست بھی خوب ہوئی لیکن کوئی نتیجہ اب تک برآمد نہیں ہوا، ٹھیک اسی طرح سال 2017 میں ہوئی کسانوں کی تحریک کی بھی ہوئی، قرض معافی کی مانگ کو لے کر مدھیہ پردیش کے مندسور میں ہوئے کسانوں کی تحریک کو روکنے کے لیے گولیاں چلانی پڑیں لیکن اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ جین کمیٹی اب تک یہ نہیں بتا سکی کہ گولیاں کس نے چلائیں۔

سال 2017 میں دہلی کے جنتر منتر پر کسانوں نے منفرد انداز میں احتجاج کیا لیکن اس احتجاج کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

سال 2018 میں بھی کسانوں نے انوکھے انداز میں احتجاج کیا اور اپنے مطالبات کو لے کر سبزیاں اور دودھ سڑک پر بکھیر دیے، آخر کار مہاراشٹر حکومت نے کسانوں کو متعدد یقین دہانی کرائی، جس کے بعد کسانوں نے اپنا احتجاج ختم کیا۔

ایک بار پھر کسانوں کا رواں احتجاج اور احتجاجی کسان کو ایسی ہی یقین دہانی کی کوشش میں مرکزی حکومت لگی ہوئی ہے، لیکن دہلی کی لرزاں کر دینے والی ٹھنڈ نے بھی کسانوں کے عزم میں لغزش تک نہیں آنے دی، دہلی کی الگ الگ سرحدوں پر کسانوں کا احتجاج جاری ہے، وہیں حکومت دعوی کر رہی ہے کہ نئے زرعی قوانین ملک کے زرعی شعبوں میں سدھار لانے کے لیے کارگر ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ زرعی شعبوں میں کوئی پہل کسان کو ساتھ لیے بغیر ممکن نہیں ہے، تحریک بھی جاری ہے اور مذاکرات بھی، نتیجہ کب برآمد ہوگا اس کا انتظار کسان سمیت ملک کو ہے۔

یہ تو محض جھلکیاں اور تاریخ کے جھروکوں سے کچھ واقعات ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے ابتک کتنے ہی کمیشنز بنے، کتنی ہی کیمیٹیاں قائم ہوئیں اور کتنے ہی ملک گیر سطح پر سروے ہوئے۔ موٹی موٹی فائلیں بنیں لیکن کسانوں کی حالت زار اب بھی وہی جو 73 سال پہلے تھی۔ تھوڑی بہت تبدیلی یا ترقی کو پوری ترقی کیسے کہ سکتے ہیں۔ جب کسان ہی اپنے لیے بنائے گئے قوانین سے خوش نہیں ہیں تو یہ کیسے کہا جائے گا کہ 'کِرشی پردھان دیش' میں کسانوں کی ترقی ہوگی۔

کسان تحریک اس ملک میں کبھی مکمل تبدیلی نہیں لا سکی، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تعلیم سے دوری غریب کسانوں کو کبھی ان کے حق کے لیے کھڑا نہیں ہونے دیا۔ البتہ کسانوں کے نام بنے سیل کے محکموں کے ذریعے کسانوں کے نام پر نئے رہنما تیار ہوتے رہے اور ان کی سیاست چمکتی رہی۔

ویڈیو

کسانوں کی سب سے متاثر کن تحریک آج سے 23 برس قبل سنہ 1988 میں دہلی کے بوٹ کلب پر ہوئی تھی جس میں لاکھوں کی تعداد میں کسان ملک کی سیاست میں داخل ہو گئے، 14 ریاستوں کے قریب پانچ لاکھ کسانوں نے ایک ہفتے تک دہلی کا محاصرہ کیا، اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت کو کسانوں کے سامنے جھکنا پڑا، سال 1988 کے بعد لیبرلائزیشن کے دور میں یوں کسانوں کی کوئی بڑی تحریک تو نہیں ہوئی لیکن اکیسویں صدی کے اوائل دہائی میں ہوئے بھٹا پرسول گاؤں بدعنوانی نے سبھی کو حیران کر دیا، بھٹا پرسول گاؤں پر سیاست بھی خوب ہوئی لیکن کوئی نتیجہ اب تک برآمد نہیں ہوا، ٹھیک اسی طرح سال 2017 میں ہوئی کسانوں کی تحریک کی بھی ہوئی، قرض معافی کی مانگ کو لے کر مدھیہ پردیش کے مندسور میں ہوئے کسانوں کی تحریک کو روکنے کے لیے گولیاں چلانی پڑیں لیکن اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ جین کمیٹی اب تک یہ نہیں بتا سکی کہ گولیاں کس نے چلائیں۔

سال 2017 میں دہلی کے جنتر منتر پر کسانوں نے منفرد انداز میں احتجاج کیا لیکن اس احتجاج کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

سال 2018 میں بھی کسانوں نے انوکھے انداز میں احتجاج کیا اور اپنے مطالبات کو لے کر سبزیاں اور دودھ سڑک پر بکھیر دیے، آخر کار مہاراشٹر حکومت نے کسانوں کو متعدد یقین دہانی کرائی، جس کے بعد کسانوں نے اپنا احتجاج ختم کیا۔

ایک بار پھر کسانوں کا رواں احتجاج اور احتجاجی کسان کو ایسی ہی یقین دہانی کی کوشش میں مرکزی حکومت لگی ہوئی ہے، لیکن دہلی کی لرزاں کر دینے والی ٹھنڈ نے بھی کسانوں کے عزم میں لغزش تک نہیں آنے دی، دہلی کی الگ الگ سرحدوں پر کسانوں کا احتجاج جاری ہے، وہیں حکومت دعوی کر رہی ہے کہ نئے زرعی قوانین ملک کے زرعی شعبوں میں سدھار لانے کے لیے کارگر ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ زرعی شعبوں میں کوئی پہل کسان کو ساتھ لیے بغیر ممکن نہیں ہے، تحریک بھی جاری ہے اور مذاکرات بھی، نتیجہ کب برآمد ہوگا اس کا انتظار کسان سمیت ملک کو ہے۔

یہ تو محض جھلکیاں اور تاریخ کے جھروکوں سے کچھ واقعات ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے ابتک کتنے ہی کمیشنز بنے، کتنی ہی کیمیٹیاں قائم ہوئیں اور کتنے ہی ملک گیر سطح پر سروے ہوئے۔ موٹی موٹی فائلیں بنیں لیکن کسانوں کی حالت زار اب بھی وہی جو 73 سال پہلے تھی۔ تھوڑی بہت تبدیلی یا ترقی کو پوری ترقی کیسے کہ سکتے ہیں۔ جب کسان ہی اپنے لیے بنائے گئے قوانین سے خوش نہیں ہیں تو یہ کیسے کہا جائے گا کہ 'کِرشی پردھان دیش' میں کسانوں کی ترقی ہوگی۔

Last Updated : Dec 23, 2020, 10:41 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.