اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
اردو زبان و ادب کے مشہور شاعر سید محمد بشیر، بشیر بدر کے نام سے مشہور ہیں۔
ان کی پیدائش 15 فروری 1935 میں، بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں ہوئی۔
ان کی اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی۔ اپنی تعلیم اور ملازمت کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مقیم رہے۔
پھر دہلی میں سکونت اختیار کی گھر میں آگ لگنے کے سبب شہر بھوپال منتقل ہو گئے۔ فی الحال بھوپال ہی میں مقیم ہیں۔
بشیر بدر نے تقریباً ساٹھ برس مشاعروں کے ذریعے پوری دنیا میں حکمرانی کی۔ ان کا پڑھنے اور داد وصول کرنے کا انداز ہی منفرد تھا۔ وہ ہر شعر کو کئی بار پڑھتے اور ایک غزل پڑھنے میں پندرہ سے بیس منٹ لگ جاتے۔
یوں کسی بھی مشاعرے میں ان کے پڑھنے کا دورانیہ ایک گھنٹے سے کم نہ ہوتا۔ ادھر بشیر بدر اپنی شاعری کے ساتھ مائیک پر آتے اُدھر ہزاروں لوگ اپنے ہاتھوں میں کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل کا دور نہیں آیا تھا۔ بشیر بدر کی شاعری کی کتب پاک و ہند میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئیں کہ ان کی ہر کتاب کو پڑھنے والے ہاتھوں ہاتھ لیتے۔
مزید پڑھیں:نربھیا کیس میں تاخیر: سزائے موت کے معاملے کے لیے گائڈ لائن
15 فروری 1935ءکو بھارت میں پیدا ہونے والے بشیر بدر نے اُردو غزل کو نئی جہت دی۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ان کی شادی راحت بدر سے ہوئی جس سے ان کے چار بچے ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لے کر ملازمت کے دوران وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں مقیم رہے۔
وہ اُردو اکادمی بھارت کے سربراہ بھی رہے۔ جبکہ بھارت میں ایم۔اے اُردو کے نصاب میں اُن کی شاعری شامل ہے۔
انہیں 1999ءمیں بھارت کا سب سے بڑا ایوارڈ 'پدما شری' دیا گیا۔ 1999ءمیں ان کی شاعری پر ساہیتہ اکادمی نے انہیں ایوارڈ سے نوازا۔
دنیا کے جس علاقہ میں اُردو پڑھی، لکھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں پر ڈاکٹر بشیر بدر کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔
بشیر بدر کی شاعری کبھی مر نہیں سکتی کہ ان کی شاعری آج محبت کرنے والوں پر حکمرانی کرتی ہے۔
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہیں ہوتا
رات کا انتظار کون کرے
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا۔