ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ریاست میں نظم و نسق کی صورتحال پر اختلاف رائے ظاہر کرنا ہمارے آئین اور جمہوریت کی پہچان ہے۔ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت یہی چیز درج کی گئی ہے، عدالت نے یہ تبصرہ ایک شخص کے خلاف دائر کردہ شکایت کو خارج کرتے ہوئے کیا۔
دراصل، درخواست گزار یشونت سنگھ نے کہا تھا کہ اترپردیش کے وزیراعلی نے ریاست کو جنگل راج میں بدل دیا ہے، جس میں نظم و نسق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یشونت نے اپنے ٹوئیٹر ہینڈل پر اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف یہ ٹوئٹ کیا تھا۔
سنگھ کے ذریعہ دائر کی گئی ایک عرضی کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر میں جن دو دفعات کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں، ان میں جرم کی کوئی بات نظر نہیں آتی۔
واضح رہے کہ کانپور دیہات ضلع کے بھوگنی پور پولیس اسٹیشن میں یہ ایف آئی آر 2 اگست کو انفارمیشن ٹکنالوجی (ترمیمی) ایکٹ کے دفعہ 500 (ہتک عزت) اور ڈی 66 (کمپیوٹر استعمال کرنے والے شخص کے ذریعہ دھوکہ دہی کے جرائم) کے تحت درج کی گئی تھی۔
ایف آئی آر میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سنگھ نے اپنے ٹویٹ میں اغوا، ناجائز وصولی اور قتل جیسے مختلف واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے ایف آئی آر کو عدالت کے سامنے چیلنج کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست کے معاملے پر تبصرہ کرنے کا حق آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت کسی فرد کے آئینی حق کے طور پر تصور کیا گیا ہے۔ وکیل نے کہا کہ اختلاف رائے ظاہر کرنا جرم نہیں ہے بلکہ یہ جمہوری نظام میں اپنی آواز اٹھانے کی طرح ہے۔
وکیل نے کہا کہ ریاستی حکومت کے خلاف اپنے عدم اطمینان کو ظاہر کرنے سے روکنے کے لیے درخواست گزار کے ساتھ زبردستی کرنے کے لیے ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔اس لیے اس کے خلاف کوئی جرم کا معاملہ نہیں بنتا ہے حالانکہ عدالتی کارروائی کے دوران ریاستی حکومت کی جانب سے پیش ہوئے وکیل نے درخواست گزار کے وکیل کی مخالفت کی۔ جسٹس پنکج نقوی اور جسٹس وویک اگروال پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا کہ ایف آئی آر میں عائد کیے گئے الزامات سے متعلق مذکورہ دفعات کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم دفعہ ڈی 66 کے تحت کوئی جرم نہیں پاتے ہیں۔ کیوں کہ جمہوریت میں اختلاف رائے کی پوری گنجائش موجود ہے۔