ETV Bharat / bharat

بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت - राकेश टिकैत किसान नेता

ملک میں کسانوں کی یہ کوئی پہلی تحریک نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی بڑی تحریکیں چل چکی ہیں۔ حکومت اور کسان ہمیشہ دو الگ الگ محور رہے ہیں اور سیاست اور عوامی نمائندے بیچ کی کڑی بنتے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں ملک کے دارالحکومت کی سڑکوں پر کسان ڈٹے ہوئے ہیں۔ نہ سردی کی فکر اور نہ ہی کورونا کا خوف۔ قانون میں وہ کون سے پہلو ہیں اور کسانوں کے کیا خدشات ہیں جن کے لیے وہ دہلی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ یوم کاشتکار کے موقع پر بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے دہلی اسٹیت ہیڈ وشال سوریہ کانت نے خاص بات چیت کی۔

بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت
بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت
author img

By

Published : Dec 23, 2020, 11:12 AM IST

Updated : Dec 23, 2020, 9:48 PM IST

سوال: کسان کن ایشوز پر بضد ہیں، وہ حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟

جواب: ترمیمی بل کے نام پر جو تین ترمیم شدہ زرعی قوانین لائے گئے ہیں وہ کسانوں کے مفاد میں نہیں ہیں۔ حکومت صرف تاجروں اور دکانداروں کے مطالبات پورے کرے گی لیکن کہتی ہے کہ یہ اصلاحاتی بل کسانوں کے لئے ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ یہ بل واپس لیں اور جو نیا ایم ایس پی ہے، اس پر قانون بنائیں۔ جب تک ایم ایس پی قانون نہیں بنے گا، تب تک کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت

سوال: حکومت کا کہنا ہے کہ جو زرعی قوانین نافذ کیے گئے ہیں، ان میں ایم ایس پی کو ہٹانے کا کوئی التزام نہیں ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟

جواب: ہم نے ایم ایس پی کو ہٹانے کی بات ہی نہیں کی، ہم تو ایم ایس پی پر قانون چاہتے ہیں۔ اس سے کوئی بھی کاروباری یا صنعت کار ہماری پیداوار کو ایم ایس پی سے کم قیمت پر نہیں خرید سکے گا۔

سوال: قانون واپس لینے کا مطالبہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دونوں فریق کے وقار سے جڑ گیا ہے۔ فی الحال، میں آپ کے ذریعہ کسان فریق سے مخاطب ہوں، اس لیے پوچھ رہا ہوں کہیں آپ نے اسے وقار کا مسئلہ تو نہیں بنا لیا ہے؟

جواب: تینوں زرعی قوانین میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں جن کی وجہ سے ہم ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ذخیرہ اندوزی کا ہے، جس کی وجہ سے کاروباریوں نے پہلے ہی ذخیرہ کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ کاروباریوں کو لاکھوں اسٹوریج بنانے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یہاں ایم ایس پی ہے نہیں اور وہ سستے اناج خرید کر، ذخیرہ اندوزی کرکے، اسے مارکیٹ میں بیچ کر منافع وہ کمائیں۔

بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت
بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت

سوال: آخر کسان اور سرکار کے درمیان سمجھوتے کا راستہ کیسے بنے گا جب دونوں ہی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟

جواب: ہم سمجھوتے کی بات کہاں کر رہے ہیں؟ ہم قانون واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت کو ہی راستہ بنانے کی ضرورت ہے۔ دہلی تھوڑا اونچا سنتی ہے تو حکومت کو تھوڑا سا اونچا سننا پڑے گا۔ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں، جب تک کوئی بات نہیں بنتی ہے ہم اپنے گھر نہیں جانے والے۔

سوال: آپ نے کہا تھا کہ حکومت کے خلاف ہل انقلاب (ہل کرانتی) برپا کریں گے، اس میں کیا ہوگا؟

جواب: ملک میں ہل انقلاب (ہل کرانتی) پر پابندی ہے کیا؟ ہم ہل انقلاب برپا کریں گے۔ ہم اپنے کھیت کے اوزاروں کو کھیتوں میں نہ صحیح، سڑکوں پر ہی دکھا سکتے ہیں۔ 26 جنوری کو ہل انقلاب (ہل کرانتی) برپا کیا جائے گا۔ کسان دہلی کی پریڈ میں شامل ہوں گے

سوال: ایک سوال یہ ہے کہ کیا کسانوں کے سبھی فریق متحد ہیں، کیا تمام کاشتکار سبھی مطالبات پر ایک ساتھ ہیں، الگ الگ ریاستوں میں زراعت کے الگ الگ مسائل ہیں۔

جواب: یہ تینوں قوانین ہر کسان کے خلاف ہیں۔ ایم ایس پی ان کاشتکاروں کا مسئلہ ہے جو فصلیں اگاتے ہیں۔ دودھ، سبزی اور پھل میں بھی ایم ایس پی ہونا چاہئے۔

سوال: حکومت اکثریت میں ہے اور معاملہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ تو کیا یہ انتظار کرو اور اور دیکھو (ویٹ اینڈ واچ) کی حکمت عملی ہے؟

جواب: ہم سات سال سے ویٹ اینڈ واچ ہی کر رہے ہیں۔ سات سال کے بعد دہلی آئے ہیں۔ جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، یہ تحریک جاری رہے گی۔ حکومت نے جو غلط فہمی پال رکھی ہے اسے دور کر لے، ہم یہاں سے نہیں ہِلنے والے۔

سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ دہلی کی سرحد پر بیٹھے کسانوں کی آواز ملک کے سبھی کسانوں تک پہنچ رہی ہے؟

مزید پڑھیں:

تازہ مذاکرات کےلیے حکومت کی نئی پیشکش پر کسانوں کا آج فیصلہ

جواب: جی ہاں، پوری حمایت مل رہی ہے۔ ریل نہیں چل رہی ہے، جس کی وجہ سے سبھی کسان یہاں نہیں آ پا رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کسان ریل روکنے کی بات کہہ رہے ہیں اور ہم ریل کھولنے کی بات کر رہے ہیں۔ گرمی کا موسم آتے ہی جو جنوبی ہند کے کسان ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ آ جائیں گے۔ پولیس انتظامیہ کسانوں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سوال: کسان کن ایشوز پر بضد ہیں، وہ حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟

جواب: ترمیمی بل کے نام پر جو تین ترمیم شدہ زرعی قوانین لائے گئے ہیں وہ کسانوں کے مفاد میں نہیں ہیں۔ حکومت صرف تاجروں اور دکانداروں کے مطالبات پورے کرے گی لیکن کہتی ہے کہ یہ اصلاحاتی بل کسانوں کے لئے ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ یہ بل واپس لیں اور جو نیا ایم ایس پی ہے، اس پر قانون بنائیں۔ جب تک ایم ایس پی قانون نہیں بنے گا، تب تک کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت

سوال: حکومت کا کہنا ہے کہ جو زرعی قوانین نافذ کیے گئے ہیں، ان میں ایم ایس پی کو ہٹانے کا کوئی التزام نہیں ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟

جواب: ہم نے ایم ایس پی کو ہٹانے کی بات ہی نہیں کی، ہم تو ایم ایس پی پر قانون چاہتے ہیں۔ اس سے کوئی بھی کاروباری یا صنعت کار ہماری پیداوار کو ایم ایس پی سے کم قیمت پر نہیں خرید سکے گا۔

سوال: قانون واپس لینے کا مطالبہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دونوں فریق کے وقار سے جڑ گیا ہے۔ فی الحال، میں آپ کے ذریعہ کسان فریق سے مخاطب ہوں، اس لیے پوچھ رہا ہوں کہیں آپ نے اسے وقار کا مسئلہ تو نہیں بنا لیا ہے؟

جواب: تینوں زرعی قوانین میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں جن کی وجہ سے ہم ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ذخیرہ اندوزی کا ہے، جس کی وجہ سے کاروباریوں نے پہلے ہی ذخیرہ کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ کاروباریوں کو لاکھوں اسٹوریج بنانے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یہاں ایم ایس پی ہے نہیں اور وہ سستے اناج خرید کر، ذخیرہ اندوزی کرکے، اسے مارکیٹ میں بیچ کر منافع وہ کمائیں۔

بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت
بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت

سوال: آخر کسان اور سرکار کے درمیان سمجھوتے کا راستہ کیسے بنے گا جب دونوں ہی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟

جواب: ہم سمجھوتے کی بات کہاں کر رہے ہیں؟ ہم قانون واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت کو ہی راستہ بنانے کی ضرورت ہے۔ دہلی تھوڑا اونچا سنتی ہے تو حکومت کو تھوڑا سا اونچا سننا پڑے گا۔ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں، جب تک کوئی بات نہیں بنتی ہے ہم اپنے گھر نہیں جانے والے۔

سوال: آپ نے کہا تھا کہ حکومت کے خلاف ہل انقلاب (ہل کرانتی) برپا کریں گے، اس میں کیا ہوگا؟

جواب: ملک میں ہل انقلاب (ہل کرانتی) پر پابندی ہے کیا؟ ہم ہل انقلاب برپا کریں گے۔ ہم اپنے کھیت کے اوزاروں کو کھیتوں میں نہ صحیح، سڑکوں پر ہی دکھا سکتے ہیں۔ 26 جنوری کو ہل انقلاب (ہل کرانتی) برپا کیا جائے گا۔ کسان دہلی کی پریڈ میں شامل ہوں گے

سوال: ایک سوال یہ ہے کہ کیا کسانوں کے سبھی فریق متحد ہیں، کیا تمام کاشتکار سبھی مطالبات پر ایک ساتھ ہیں، الگ الگ ریاستوں میں زراعت کے الگ الگ مسائل ہیں۔

جواب: یہ تینوں قوانین ہر کسان کے خلاف ہیں۔ ایم ایس پی ان کاشتکاروں کا مسئلہ ہے جو فصلیں اگاتے ہیں۔ دودھ، سبزی اور پھل میں بھی ایم ایس پی ہونا چاہئے۔

سوال: حکومت اکثریت میں ہے اور معاملہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ تو کیا یہ انتظار کرو اور اور دیکھو (ویٹ اینڈ واچ) کی حکمت عملی ہے؟

جواب: ہم سات سال سے ویٹ اینڈ واچ ہی کر رہے ہیں۔ سات سال کے بعد دہلی آئے ہیں۔ جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، یہ تحریک جاری رہے گی۔ حکومت نے جو غلط فہمی پال رکھی ہے اسے دور کر لے، ہم یہاں سے نہیں ہِلنے والے۔

سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ دہلی کی سرحد پر بیٹھے کسانوں کی آواز ملک کے سبھی کسانوں تک پہنچ رہی ہے؟

مزید پڑھیں:

تازہ مذاکرات کےلیے حکومت کی نئی پیشکش پر کسانوں کا آج فیصلہ

جواب: جی ہاں، پوری حمایت مل رہی ہے۔ ریل نہیں چل رہی ہے، جس کی وجہ سے سبھی کسان یہاں نہیں آ پا رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کسان ریل روکنے کی بات کہہ رہے ہیں اور ہم ریل کھولنے کی بات کر رہے ہیں۔ گرمی کا موسم آتے ہی جو جنوبی ہند کے کسان ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ آ جائیں گے۔ پولیس انتظامیہ کسانوں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

Last Updated : Dec 23, 2020, 9:48 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.