ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
جیسے اشعار کے خالق، عالمی شہرت یافتہ اور انقلابی شاعر راحت اندوری آج اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا فی الوقت تو ممکن نظر نہیں آتا۔ انہوں نے اپنے اشعار، غزلوں، نظموں اور اپنے انداز سے جو ایک جہاں بنائی تھی آج اس کا سورج غروب ہوگیا۔
جب بھی بھارت سمیت دنیا بھر میں مشاعروں کی قدر میں عروج اور اہمیت کی بات کی جائے گی، تو راحت اندوری کے بغیر نامکمل سمجھا جائے گا اور ان کے بغیر مشاعرے کا نام لینا بھی مشاعرے کی توہین ہو گی۔
راحت اندوری اپنی باکمال شاعری کی وجہ سے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئے۔ ایک طرف ان کا شعری اسلوب نہایت دلکش تھا تو دوسری طرف وہ جس انداز سے اشعار پڑھتے تھے وہ بھی نہایت منفرد تھا اور یہی وہ چیزیں تھیں جس نے انہیں دیگر شعراء سے منفرد کردیا اور ان کے اس منفرد انداز نے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا۔
جدید غزل میں ایک منفرد مقام حاصل کرنے والے راحت اندوری کا اصل میدان غزل ہے اور انہوں نے ندرت خیال اور نکتہ آفرینی کی وجہ سے غزل کو نئے معانی دیے ہیں۔
عوام و خاص اور دیگر شعراء میں ان کی منفرد حیثیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں مشاعرے میں نیا مزاج پیدا کیا۔ سامع اور شاعر کے بیچ فا صلے کو ڈھا دیا۔ سہل اور آسان زبان میں عمیق نکات پیش کئے۔ اپنے منفرد اسلوب کے باعث انہوں نے مترنم شاعروں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔
انہوں نے بہت سی فلموں کیلئے بھی گیت لکھے جن میں آشیاں، سر، جنم، خود دار، مرڈر، منا بھائی ایم بی بی ایس، مشن کشمیر، میناکشی، قریب اور عشق وغیرہ شامل ہیں ۔
اردو شاعری کے حوالے سے بھی انہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔ جن میں خاص طور پر روپ روپ، پانچواں درویش، ناراض، لمحے شامل ہیں۔
مزید پڑھیں:
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
راحت اندوری اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی تخلیقات ہمیں ہمیشہ ان سے قریب رکھیں گے۔
ہمیں حقیر نہ جانو ہم اپنے نیزے سے
غزل کی آنکھ میں کاجل لگانے والے ہیں