ان کے والد رفعت اللہ قریشی اور والدہ مقبول النساء بیگم اندور میں ایک کپڑے کی مل میں ملازم تھے۔ ابتدائی اسکول کی تعلیم انہوں نے نوتن ہائر سیکنڈری سکول سے مکمل کی۔ سنہ 1973 مین انہوں نے اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے گریجویشن کیا۔ سنہ 1975 میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا ۔ 1985 میں بھوج یونیورسٹی مدھیہ پردیش سے اردو میں مشاعرہ پر مقالہ لکھنے پر انہیں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔
ملازمت کا آغاز اندور کے ایک کالج میں اردو ادب پڑھانے سے کیا وہ مشاعروں میں بہت ذوق و شوق سے شرکت کیا کرتے تھے۔ جلد ھی وہ ملک کے مایہ ناز شاعر کے طور پر مقبول ہو گئے اور اردو لٹریچر کی ممتاز شخصیات میں ان کا شمار ہونے لگا۔ ادب کے ساتھ ساتھ وہ سکول اور کالج لیول کی فٹ بال اور ہاکی ٹیم کے کیپٹن بھی رہے ۔ انہوں نے شعر و شاعری کا آغاز کالج دور سے ہی شروع کر دیا تھا جب ان کی عمر صرف 19 برس تھی۔ ان کے شعروں میں تازگی اور نیاپن شروع ہی سے تھا ۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہین بے شمار اعزازات سے نوازا گیا۔
انہوں نے بہت سی فلموں کیلئے بھی گیت لکھے جن میں آشیاں، سر، جنم، خود دار، مرڈر، منا بھائی ایم بی بی ایس، مشن کشمیر، میناکشی، قریب اور عشق وغیرہ شامل ہیں ۔ اردو شاعری کے حوالے سے بھی انہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔ جن میں خاص طور پر روپ روپ، پانچواں درویش، ناراض، لمحے لمحے شامل ہیں۔
نمونہ کلام
ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی، تو مِری جان! لُٹاتے جاتے
----------
ہمیں حقیر نہ جانو ہم اپنے نیزے سے
غزل کی آنکھ میں کاجل لگانے والے ہیں
----------
اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں
----------
بتوں سےمجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
----------
میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر
یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں
----------
ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں
----------
اس آدمی کو بس اک دھن سوار رہتی ہے
بہت حسیں ہے یہ دنیا اسے خراب کروں
----------
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
----------
سمندر پار ہوتی جا رہی ہے
دعا ، پتوار ہوتی جا رہی ہے
----------
دریچے اب کھلے ملنے لگے ہیں
فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے
----------
کئی دن سے مرے اندر کی مسجد
خدا بیزار ہوتی جا رہی ہے
----------
مسائل، جنگ، خوشبو، رنگ، موسم
غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے
بہت کانٹوں بھری دنیا ہے لیکن
گلے کا ہار ہوتی جا رہی ہے
کٹی جاتی ہیں سانسوں کی پتنگیں
ہوا تلوار ہوتی جا رہی ہے
کوئی گنبد ہے دروازے کے پیچھے
صدا بیکار ہوتی جا رہی ہے
گلے کچھ دوست آ کر مل رہے ہیں
چھری پر دھار ہوتی جا رہی ہے
----------
زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
میرے کیسہ میں مری وفائیں رہ گئیں
----------
نوجواں بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اڑے
گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں
----------
بُجھ گیا وحشی کبوتر کی ہوس کا گرم خون
نرم بستر پر تڑپتی فاختائیں رہ گئیں
----------
ایک اک کر کے ہوئے رخصت مرے کنبے کے لوگ
گھر کے سناٹے سے ٹکراتی ہوائیں رہ گئیں
----------
بادہ خانے، شاعری، نغمے، لطیفے، رتجگے
اپنے حصے میں یہی دیسی دوائیں رہ گئیں
----------
رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے
----------
آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے
----------
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے
----------
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے
----------
لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے