ETV Bharat / bharat

'امن برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری' - مختار عباس کی مسلم وفد سے ملاقات

ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے ایک وفد نے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کو ایک میمورنڈم سونپا، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایودھیا کیس پر فیصلے کے بعد حالات کو پرامن بنائے رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے ایک وفد کی مختار عباس نقوی سے ملاقات۔
author img

By

Published : Nov 6, 2019, 9:02 PM IST


مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو دیے گئے میمورنڈم میں ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں ملکی امن کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف سخت سے سخت سے کارروائی کیا جائے۔

ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے وفد نے مرکزی وزیر سے کہا کہ نفرت کا زہر پھیلانے والوں پر کارروائی ہونی اور ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ماقبل یامابعد ہر حال میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ترجیحی ذمہ داری ہے کہ وہ امن، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کو بانئے رکھنے میں مخلصانہ عملی اقدام کریں۔

ادارہ شرعیہ نے کہا ہے کہ گرچہ ہمارے اصل موقف کے مطابق کسی مسلمان کویہ حق نہیں کہ وہ مسجد تبدیل کرے چونکہ وہ اللہ کی ملکیت ہے اور صبح قیامت تک مسجد کے ہی حکم میں رہے گی تاہم صرف اور صرف بابری مسجد-رام جنم بھومی معاملہ میں عدالت عظمی کا جو بھی فیصلہ آئیگا، مسلمان اسے تسلیم کرینگے۔

ادارہ شرعیہ نے کہا کہ بھارت کے تمام طبقوں کو چاہیئے کہ مسلمانوں کی طرح وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کااحترام کریں اور گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھیں۔

وفد نے یہ بھی کہا کہ 'ملک میں چند ہی افراد ہیں جو یہاں کے امن وسکون کے تانہ بانہ کو تارتار کررہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں ہماری سرپرستی حکومت کررہی ہے اور ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لہذا حکومت کو ایسے عناصر پر بھی گہری نظررکھنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ شرعیہ کے وفد نے مزید دوچند سجھاؤ بھی دیئے ہیں ان میں مندرجہ ذیل ہیں:

امن، ہم آہنگی اور سماجی تانے بانے کو ‎مظبوط کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

ہمارے ملک کی معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانا سب سے اہم کام ہیں کیونکہ یہ تانے بانے ریشم کے دھاگے سے پتلا ہے لیکن کسی بھی اسٹیل کی شہتیر سے زیادہ مضبوط ہے۔

برادریوں کی جدوجہد اور ترقی کی منازل اس وقت طے ہوتی ہے جب کسی فرد کو باہمی انحصار اور مشترکہ وسائل کے اشتراک پر بنائے گئے گروپ کا حصہ بننے کے بارے میں احساس ہوتا ہے۔ آج کی تیز رفتار مواصلات کی دنیا میں میڈیا کے منفی اثرات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس کی غلط نمائش بھی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، حالیہ دنوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا کو ہمارے معاشرے کو مذہب ، ذات پات اور قد و قامت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح کی بدنامی کمیونٹیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ تاہم ہمارے پیارے ملک کے معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانے میں حکومت کا بہت بڑا کردار ہوناچاہیئے۔

لہذا بابری مسجد قضیہ پرآنے والا فیصلہ کے تناظر میں ہم تجویز کرتے ہیں کہ امن ، ہم آہنگی کو فروغ دینے اور معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جانے چاہئیں:

انتہائی حساس مقامات (خاص طور پر مسلم اکثریتی اور مرکزی علاقوں) میں افسران (پولیس / انتظامی شخصیات) کو تعینات کیا جانا چاہئے۔ ایسے افسروں کی تعیناتی سے مسلمانوں میں خوف کے نفسیات کو یقینی طور پر کم کیا جائیگا،کسی بھی ذات ، مسلک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نفرت اور عدم رواداری کو فروغ دینے میں ملوث ہونے کے عوامل کے مطابق سزا دی جانی چاہئے۔اس میں ذات، برادری، مذہب اور طبقہ میں امتیاز نہیں برتنی چاہیئے۔

سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پوسٹوں پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔

ملک کی وہ مساجد جو بنیادی طور پر ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کے زیر کنٹرول ہیں اور سیاح بھی نہیں جاتے ان کو وہاں کی مسجد انتظامیہ کے مطابق پیشہ ورانہ مشق اور اسلام کی روشنی میں معاشرے میں امن و ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کے حوالے کیا جانا چاہئے۔

جعلی اور من گھڑت خبروں / معلومات کو پھیلانے کے لئے حکومت کو مناسب طریقے سے اسکریننگ اور ان سے نمٹنا ضروری ہے تاکہ مختلف طبقوں کے درمیان انتشار نہ پھیل سکے۔

ہجومی تشدد اور این آر سی جیسے معاملات کو ذات پات، مسلک اور مذہب سے قطع نظر مناسب طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔

میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ سرزمین ھند بزرگوں، صوفی سنتوں کی ہے جن بزرگوں نے معاشرتی تانے بانے کو مضبوط کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ ہمیں اپنے باپ دادا کی میراث کو زندہ رکھنے پر فخر ہے جنہوں نے ہماری قوم کو مضبوط بنانے میں انتھک محنت کی۔ ہم ایسے جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں جہاں مختلف عقیدے کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں جو "تنوع میں اتحاد" کی علامت ہے اور یہ جمہوری بھارت کا اصل حسن ہے۔ اس لیئے امن اور ہم آہنگی دوطرفہ باہمی تعامل ہے تاکہ برادریوں کے مابین رائے کے تبادلے کے پروگرام کا انعقاد بہتر ہو۔ ادارہ شرعیہ نے ملک کے تمام باشندوں سے بھی مخلصانہ اپیل کی ہے کہ فیصلہ خواہ جوبھی آے بھائ چارہ اور امن وشانتی کوہر حال میں بناےرکھیں نہ جشن کاماحول ہواور نہ ہی ماتمی فضابنے بلکہ خیرسگالی کاماحول قائم رہے۔

ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے اس اعلی سطحی وفد میں سید شاہ بابراشرف اشرف الجیلانی، مولاناقطب الدین رضوی، درگاہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی کے سجادہ نشیں سیدشاہ حافظ حمادنظامی، پروفیسر ڈاکٹر پرویز حسن، سید محمد احمدمیاں، حضرت مولانا سیدشاہ عین الدین چشتی صاحب سجادہ خانقاہ چشتیہ عالیہ شیخ پورہ نوادہ بہار، تحریک پیغام اسلام کے چیئرمین مولانا سیدشاہ سیف الدین اصدق جمشیدپور، صوفی شاہ خورشید احمد چشتی، علی احمد اور صحافی شعیب صدیقی دھلی شریک تھے۔


مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو دیے گئے میمورنڈم میں ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں ملکی امن کو نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف سخت سے سخت سے کارروائی کیا جائے۔

ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے وفد نے مرکزی وزیر سے کہا کہ نفرت کا زہر پھیلانے والوں پر کارروائی ہونی اور ایودھیا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ماقبل یامابعد ہر حال میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ترجیحی ذمہ داری ہے کہ وہ امن، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کو بانئے رکھنے میں مخلصانہ عملی اقدام کریں۔

ادارہ شرعیہ نے کہا ہے کہ گرچہ ہمارے اصل موقف کے مطابق کسی مسلمان کویہ حق نہیں کہ وہ مسجد تبدیل کرے چونکہ وہ اللہ کی ملکیت ہے اور صبح قیامت تک مسجد کے ہی حکم میں رہے گی تاہم صرف اور صرف بابری مسجد-رام جنم بھومی معاملہ میں عدالت عظمی کا جو بھی فیصلہ آئیگا، مسلمان اسے تسلیم کرینگے۔

ادارہ شرعیہ نے کہا کہ بھارت کے تمام طبقوں کو چاہیئے کہ مسلمانوں کی طرح وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کااحترام کریں اور گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھیں۔

وفد نے یہ بھی کہا کہ 'ملک میں چند ہی افراد ہیں جو یہاں کے امن وسکون کے تانہ بانہ کو تارتار کررہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں ہماری سرپرستی حکومت کررہی ہے اور ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لہذا حکومت کو ایسے عناصر پر بھی گہری نظررکھنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ شرعیہ کے وفد نے مزید دوچند سجھاؤ بھی دیئے ہیں ان میں مندرجہ ذیل ہیں:

امن، ہم آہنگی اور سماجی تانے بانے کو ‎مظبوط کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

ہمارے ملک کی معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانا سب سے اہم کام ہیں کیونکہ یہ تانے بانے ریشم کے دھاگے سے پتلا ہے لیکن کسی بھی اسٹیل کی شہتیر سے زیادہ مضبوط ہے۔

برادریوں کی جدوجہد اور ترقی کی منازل اس وقت طے ہوتی ہے جب کسی فرد کو باہمی انحصار اور مشترکہ وسائل کے اشتراک پر بنائے گئے گروپ کا حصہ بننے کے بارے میں احساس ہوتا ہے۔ آج کی تیز رفتار مواصلات کی دنیا میں میڈیا کے منفی اثرات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس کی غلط نمائش بھی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، حالیہ دنوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا کو ہمارے معاشرے کو مذہب ، ذات پات اور قد و قامت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح کی بدنامی کمیونٹیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ تاہم ہمارے پیارے ملک کے معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانے میں حکومت کا بہت بڑا کردار ہوناچاہیئے۔

لہذا بابری مسجد قضیہ پرآنے والا فیصلہ کے تناظر میں ہم تجویز کرتے ہیں کہ امن ، ہم آہنگی کو فروغ دینے اور معاشرتی تانے بانے کو مضبوط بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جانے چاہئیں:

انتہائی حساس مقامات (خاص طور پر مسلم اکثریتی اور مرکزی علاقوں) میں افسران (پولیس / انتظامی شخصیات) کو تعینات کیا جانا چاہئے۔ ایسے افسروں کی تعیناتی سے مسلمانوں میں خوف کے نفسیات کو یقینی طور پر کم کیا جائیگا،کسی بھی ذات ، مسلک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نفرت اور عدم رواداری کو فروغ دینے میں ملوث ہونے کے عوامل کے مطابق سزا دی جانی چاہئے۔اس میں ذات، برادری، مذہب اور طبقہ میں امتیاز نہیں برتنی چاہیئے۔

سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پوسٹوں پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔

ملک کی وہ مساجد جو بنیادی طور پر ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کے زیر کنٹرول ہیں اور سیاح بھی نہیں جاتے ان کو وہاں کی مسجد انتظامیہ کے مطابق پیشہ ورانہ مشق اور اسلام کی روشنی میں معاشرے میں امن و ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کے حوالے کیا جانا چاہئے۔

جعلی اور من گھڑت خبروں / معلومات کو پھیلانے کے لئے حکومت کو مناسب طریقے سے اسکریننگ اور ان سے نمٹنا ضروری ہے تاکہ مختلف طبقوں کے درمیان انتشار نہ پھیل سکے۔

ہجومی تشدد اور این آر سی جیسے معاملات کو ذات پات، مسلک اور مذہب سے قطع نظر مناسب طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔

میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ سرزمین ھند بزرگوں، صوفی سنتوں کی ہے جن بزرگوں نے معاشرتی تانے بانے کو مضبوط کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ ہمیں اپنے باپ دادا کی میراث کو زندہ رکھنے پر فخر ہے جنہوں نے ہماری قوم کو مضبوط بنانے میں انتھک محنت کی۔ ہم ایسے جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں جہاں مختلف عقیدے کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں جو "تنوع میں اتحاد" کی علامت ہے اور یہ جمہوری بھارت کا اصل حسن ہے۔ اس لیئے امن اور ہم آہنگی دوطرفہ باہمی تعامل ہے تاکہ برادریوں کے مابین رائے کے تبادلے کے پروگرام کا انعقاد بہتر ہو۔ ادارہ شرعیہ نے ملک کے تمام باشندوں سے بھی مخلصانہ اپیل کی ہے کہ فیصلہ خواہ جوبھی آے بھائ چارہ اور امن وشانتی کوہر حال میں بناےرکھیں نہ جشن کاماحول ہواور نہ ہی ماتمی فضابنے بلکہ خیرسگالی کاماحول قائم رہے۔

ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے اس اعلی سطحی وفد میں سید شاہ بابراشرف اشرف الجیلانی، مولاناقطب الدین رضوی، درگاہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی کے سجادہ نشیں سیدشاہ حافظ حمادنظامی، پروفیسر ڈاکٹر پرویز حسن، سید محمد احمدمیاں، حضرت مولانا سیدشاہ عین الدین چشتی صاحب سجادہ خانقاہ چشتیہ عالیہ شیخ پورہ نوادہ بہار، تحریک پیغام اسلام کے چیئرمین مولانا سیدشاہ سیف الدین اصدق جمشیدپور، صوفی شاہ خورشید احمد چشتی، علی احمد اور صحافی شعیب صدیقی دھلی شریک تھے۔

Intro:Body:

article id 


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.