ETV Bharat / bharat

سائبر کرائم اور آج کا بھارت

author img

By

Published : Nov 11, 2019, 7:47 PM IST

Updated : Nov 11, 2019, 10:49 PM IST

بھارت کو انسداد سائبر کرائم کا چیمئین ہونے کا دعویٰ ہے لیکن اس پر کئی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ہندوستان کا خفیہ ترین ڈاٹا جو سیکیورٹی سے جڑا ہوا ہے اسے بیرونی طاقتوں سے چرائے جانا ایک بڑے خطرے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔فوج کی شمالی کمان کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ڈی،ایس، ہڈا نے ای ٹی وی بھارت کیلئے خصوصی تحریر میں 21 ویں صدی میں سیکیورٹی کے ان خطرات کے سدباب کا احاطہ کیا ہے۔

سائبر کرائم اور آج کا بھارت

کے،این،پی،پی کے نیوکلر پاور پلانٹ نے پہلے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی سچائی کو افواہ قرار دیا اور دوسرے ہی روز ایک نئی پریس کانفرنس کے ذریعے سیند لگانے والے کی سراغ رسانی کی خبر سنائی اس سے کے،این،پی،پی کے ارباب حل و عقد کی معتبریت بھی سوالوں کے گھیرے میں آگئی ہے۔

جس طرح کے،این،پی،پی کو اعتراف جرم اور اعتراف شکست پر مجبور ہونا پڑا اور جس طرح سے اس سارے معاملے میں امریکہ کا نام سامنے آیا ہے وہ نہ صرف ہمارے سیکیورٹی نظام کو طشت از بام کرتا ہے بلکہ بلکہ کافی حد تک وہ امریکہ کے ساتھ ہماری لیلی مجںوں والی دعوے داری کےکھوکھلے پن پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔

سائبر کے اس حملے میں ہمارے لئے سب سے زیادہ سبق آموز یہ تھا کہ کس طرح ہمارے سیکیورٹی نظام پر اس طرح کا حملہ ہو اور ہمیں اس کی بھنک بھی نہ لگے۔جیسا کہ،کے، این ،پی، پی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 2004 میں اس کی تیاریوں کا آغاز ہوا تھا اور نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے ری ایکٹر کے کنٹرول کرنے والے کمپیوٹرز میں خطرات کی نشاندھی کی تھی اور اپنے نیٹ ورک کے ذریعے اس بات کا پتا لگایا تھا کہ یہ کس حد تک اپنا دائرہ بڑھا سکتا ہے اور اس کی حد کہاں تک ہے۔ہم ابھی تک یہ پتا لگانے میں ناکام رہے ہیں کہ چوری کی گئی معلومات کو کہاں اور کس کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس سارے معاملے کو یہ کہہ کر ختم کردیا گیا کہ ”تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ پی سی کا تعلق ایک ایسے صارف سے تھا جو انٹرنیٹ سے منسلک نیٹ ورک سے جڑا ہوا تھا۔اور یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے بہت زیادہ سنگین کہا جاسکے۔یہ سچ ہے کہ اس سے جوہری پلانٹ کا کام کاج متاثر نہیں ہوا تھا،لیکن ایک اور طرح کے جوہری ہتھیار سے اس طرح کا حملہ کیا جاسکتا ہے اسے اس طرح بھی دیکھا جانا چایئے کہیں اگلی بار یہ اور زیادہ طاقت اور قوت کے ساتھ استعمال نہ ہو۔جب براک اوبامہ نے 2009 میں اقتدار سنبھالا تو ایرانی جوہری طاقت سینٹری فیوجر نے قابو سے باہر ہونا شروع کیا یہ ایک ملک کا دوسرے ملک کے خلاف پہلا سائبر استعمال سمجھا جاتا ہے۔فریڈ کپلن نے اپنی کتاب ”ڈارک ٹیرٹری :دی سیکریٹ ہسٹری آف سائبر وار“میں اس حملے کی کچھ تفصیلات بتائی ہیں۔

امریکیوں نے نیٹنز کنٹرول سسٹم کو قابو میں کرنے کے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا جو غیر معمولی طور پر طاقت ور ہے اور جس نے پانچ خطرات کی نشاندھی کی تھی جو اس سے پہلے معلوم نہیں تھے۔جسے عام طور پہ زیرہ دن کے استعمال کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔نتنزہ مین تباہ ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق 1000 اور 2000 کے درمیان تھا اور جس نے ایرانی یورینیم کی افزودگی کی کوششوں کو کئی سال پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اس خطرے کے پیش نظر بہت سے ممالک نے نیٹ ورکس میں غیر ملکی مصنوعات پر پابندی عائد کردی ہے۔
ایران نے اپنی بندرگاہ میں اپنے پاور پلانٹ میں دوسرا نیوکلئیر ری ایکٹر تعمیر کرنا شروع کردیا ہے، یہ ایسی سہولت ہے جس میں یورینیم کی وافر تعداد ہوگی اور جس میں 2015 کی کھردری ایٹمی معاہدے کی نشاندھی کی حدود سے کئی آگے کا سفر طے کیا گیا ہے۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا آج ایک پرسکون لیکن ممکنہ طور پر مہلک سائبر وار میں مصروف ہے جس میں ایک اہم ادارہ جو ملک کو چلاتا ہے اس کے لیے یہ کافی حد تک ایک چیلنج ہے اور خطرناک بھی۔مارچ 2018 میں،امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے روسی حکومت کے سائبر دخل اندازیوں پر ایک الرٹ جاری کیا تھا ۔سائبر کے خطرے نے توانائی,جوہری،تجارت،پانی،ہوابازی، کی تیاریوں میں امریکی حکومت کے اداروں کے ساتھ ساتھ تنظیموں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم ایک خطرناک غیر مجاز علاقے میں داخل ہوگئے ہیں۔ایسٹونیا پر 2008میں سائبر ٹیک،سونی پکچرز کے شمالی کوریائی ہیک سعودی ارمکو اور امریکی بینکوں پر ایرانی سائبر ٹیکس،امریکی فوجی ٹکنالوجی کی چینی سائبر چوری اور 2016 میں شمالی کوریا کے میزائل کی ناکامی میں امریکی سائبر مداخلت کا شبہ ہے۔ یہ نہایت پریشان کرنے والی بات ہے اور ہم ابھی تک اس کے دوررس خطرناک نتائج سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرپائے ہیں۔

(لیفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا، فوج کی شمالی کمان کے سربراہ رہے ہیں، انکی قیادت میں ہی بھارت نے سرجیکل سٹرائکس کی تھیں)

کے،این،پی،پی کے نیوکلر پاور پلانٹ نے پہلے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی سچائی کو افواہ قرار دیا اور دوسرے ہی روز ایک نئی پریس کانفرنس کے ذریعے سیند لگانے والے کی سراغ رسانی کی خبر سنائی اس سے کے،این،پی،پی کے ارباب حل و عقد کی معتبریت بھی سوالوں کے گھیرے میں آگئی ہے۔

جس طرح کے،این،پی،پی کو اعتراف جرم اور اعتراف شکست پر مجبور ہونا پڑا اور جس طرح سے اس سارے معاملے میں امریکہ کا نام سامنے آیا ہے وہ نہ صرف ہمارے سیکیورٹی نظام کو طشت از بام کرتا ہے بلکہ بلکہ کافی حد تک وہ امریکہ کے ساتھ ہماری لیلی مجںوں والی دعوے داری کےکھوکھلے پن پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔

سائبر کے اس حملے میں ہمارے لئے سب سے زیادہ سبق آموز یہ تھا کہ کس طرح ہمارے سیکیورٹی نظام پر اس طرح کا حملہ ہو اور ہمیں اس کی بھنک بھی نہ لگے۔جیسا کہ،کے، این ،پی، پی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 2004 میں اس کی تیاریوں کا آغاز ہوا تھا اور نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے ری ایکٹر کے کنٹرول کرنے والے کمپیوٹرز میں خطرات کی نشاندھی کی تھی اور اپنے نیٹ ورک کے ذریعے اس بات کا پتا لگایا تھا کہ یہ کس حد تک اپنا دائرہ بڑھا سکتا ہے اور اس کی حد کہاں تک ہے۔ہم ابھی تک یہ پتا لگانے میں ناکام رہے ہیں کہ چوری کی گئی معلومات کو کہاں اور کس کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس سارے معاملے کو یہ کہہ کر ختم کردیا گیا کہ ”تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ پی سی کا تعلق ایک ایسے صارف سے تھا جو انٹرنیٹ سے منسلک نیٹ ورک سے جڑا ہوا تھا۔اور یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے بہت زیادہ سنگین کہا جاسکے۔یہ سچ ہے کہ اس سے جوہری پلانٹ کا کام کاج متاثر نہیں ہوا تھا،لیکن ایک اور طرح کے جوہری ہتھیار سے اس طرح کا حملہ کیا جاسکتا ہے اسے اس طرح بھی دیکھا جانا چایئے کہیں اگلی بار یہ اور زیادہ طاقت اور قوت کے ساتھ استعمال نہ ہو۔جب براک اوبامہ نے 2009 میں اقتدار سنبھالا تو ایرانی جوہری طاقت سینٹری فیوجر نے قابو سے باہر ہونا شروع کیا یہ ایک ملک کا دوسرے ملک کے خلاف پہلا سائبر استعمال سمجھا جاتا ہے۔فریڈ کپلن نے اپنی کتاب ”ڈارک ٹیرٹری :دی سیکریٹ ہسٹری آف سائبر وار“میں اس حملے کی کچھ تفصیلات بتائی ہیں۔

امریکیوں نے نیٹنز کنٹرول سسٹم کو قابو میں کرنے کے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا جو غیر معمولی طور پر طاقت ور ہے اور جس نے پانچ خطرات کی نشاندھی کی تھی جو اس سے پہلے معلوم نہیں تھے۔جسے عام طور پہ زیرہ دن کے استعمال کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔نتنزہ مین تباہ ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق 1000 اور 2000 کے درمیان تھا اور جس نے ایرانی یورینیم کی افزودگی کی کوششوں کو کئی سال پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اس خطرے کے پیش نظر بہت سے ممالک نے نیٹ ورکس میں غیر ملکی مصنوعات پر پابندی عائد کردی ہے۔
ایران نے اپنی بندرگاہ میں اپنے پاور پلانٹ میں دوسرا نیوکلئیر ری ایکٹر تعمیر کرنا شروع کردیا ہے، یہ ایسی سہولت ہے جس میں یورینیم کی وافر تعداد ہوگی اور جس میں 2015 کی کھردری ایٹمی معاہدے کی نشاندھی کی حدود سے کئی آگے کا سفر طے کیا گیا ہے۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا آج ایک پرسکون لیکن ممکنہ طور پر مہلک سائبر وار میں مصروف ہے جس میں ایک اہم ادارہ جو ملک کو چلاتا ہے اس کے لیے یہ کافی حد تک ایک چیلنج ہے اور خطرناک بھی۔مارچ 2018 میں،امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے روسی حکومت کے سائبر دخل اندازیوں پر ایک الرٹ جاری کیا تھا ۔سائبر کے خطرے نے توانائی,جوہری،تجارت،پانی،ہوابازی، کی تیاریوں میں امریکی حکومت کے اداروں کے ساتھ ساتھ تنظیموں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم ایک خطرناک غیر مجاز علاقے میں داخل ہوگئے ہیں۔ایسٹونیا پر 2008میں سائبر ٹیک،سونی پکچرز کے شمالی کوریائی ہیک سعودی ارمکو اور امریکی بینکوں پر ایرانی سائبر ٹیکس،امریکی فوجی ٹکنالوجی کی چینی سائبر چوری اور 2016 میں شمالی کوریا کے میزائل کی ناکامی میں امریکی سائبر مداخلت کا شبہ ہے۔ یہ نہایت پریشان کرنے والی بات ہے اور ہم ابھی تک اس کے دوررس خطرناک نتائج سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرپائے ہیں۔

(لیفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا، فوج کی شمالی کمان کے سربراہ رہے ہیں، انکی قیادت میں ہی بھارت نے سرجیکل سٹرائکس کی تھیں)

Intro:Body:

11 nov 


Conclusion:
Last Updated : Nov 11, 2019, 10:49 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.