وزیراعظم نریندر مودی کے اعلان کے بعد جو حالات سامنے آئے ہیں ان میں سب سے زیادہ پریشان مزدور طبقہ ہوا ہے۔ ملک میں ان مزدوروں کی ایسی حالت زار منظر عام پر آئی ہے کہ وہ کس کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ لوگ اینٹ بھٹہ و تعمیراتی مزدوروں، مٹھائی دکانوں پر بندھوا مزدوری، بندرگاہوں پر سر پر بوجھ ڈھونے والوں۔ فیکٹری و زراعتی مزدوری کرکے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔
یہ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ یا اکیلے ہی ملک کے مختلف حصوں میں زراعتی مزدوروں کے طور کام کرنے کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بہار، جھارکھنڈ، اْڑیسہ اور مشرقی اْترپردیش سے ہوتا ہے جو اپنا خون پسینہ بہا کر زبردست محنت کے ذریعے ایک نئے خوشحال ملک کی تعمیر کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ لوگ پسماندہ ہیں جن کی کسی کو پرواہ نہیں اور جو کسی گنتی ہی میں نہیں ہیں تاہم ان حالات کے باوجود یہ لوگ کسی نہ کسی طرح زندہ رہتے ہیں۔
غیر منصوبہ بند طریقے سے کیے گئے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ان کی جو تصاویر اور ویڈیو ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا اور اخبارات پر دیکھنے کو ملیں ہیں وہ دل دہلانے والی ہیں کہ یہ کس طرح ان لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے سینکڑوں میل کی مسافت پیدل طے کرنے کے لیے مجبور کیے گئے ہیں۔
ان کی حالت زار نے انفردای طور پر کئی افراد اور غیر سرکاری اداروں سے وابستہ لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ جنہوں نے ان کے لیے کھانے پینے، چھت اور پیسوں کی صورت میں مدد فراہم کی۔ چند ریاستی حکومتوں نے بھی اب آخر کار ان کی حالت زار کی طرف توجہ دینا شروع کر دیا ہے۔
مفاد عامہ سے متعلق ایک درخواست جس میں ان لاچار لوگوں جو اکیس دن کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ان کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروریات کی مانگ کی گئی تھی جس پر کاروائی کرتے ہوئے عدالت عظمٰی نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ لوگوں میں پھیلا خوف و ہراس دراصل کورونا وائرس وبا کے ڈر سے زیادہ ڈراؤنا ہے۔
عدالت نے حکومت سے ایک رپورٹ کا مطالبہ کیا جس میں بتایا جائے کہ مزدوروں کی شہروں سے اچانک سے گھر واپسی کی صورتحال کے حوالے سے کیا کچھ کیا جا رہا ہے۔
نقل مکاںی کرنے والے مزدوروں کے حوالے سے تلنگانہ حکومت کا رد عمل
تلنگانہ حکومت نے تقریباً ساڑھے تین لاکھ نقل مکاں مزدوروں جن میں زیادہ تر بہار، جھارکنڈ اور اْڑیسہ سے ہیں، اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے بہت سے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے ان اقدامات کا خلاصہ ہندی زبان میں کیا تاکہ مزدوروں میں اعتماد اور حوصلہ بحال کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ 'تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کتنے بھی کروڑ خرچ کرنے پڑیں ہم کریں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جتنا بھی پیسہ ضرورت پڑے انتظام کیا جائے گا۔ آپ مطمئن رہیں کسی بھی قیمت پر تلنگانہ یا کسی اور ریاست میں کوئی بھوکا نہیں رہے گا'۔
انہوں نے مزدوروں سے یہ بھی گذارش کی کہ 'وہ تلنگانہ میں ہی رہیں اور یہاں سے اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوشش نہ کریں، آپ تلنگانہ کی تعمیر میں مدد کرنے کے لئے یہاں ہیں اس لئے آپ بھی ہمارے خاندان کے ہی فرد ہیں۔ آپ لوگ کسی بھی طرح کی فکر نہ کریں ۔ہم آپ کا خیال رکھنے میں کسی بھی طرح کی کمی نہیں رکھیں گے'۔
تیس مارچ کو حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے حکم نامے سے بھی وزیر اعلیٰ کے ان احساسات کی عکاسی ہوتی ہے کہ نقل مکاں مزدور تلنگانہ کی تعمیر و ترقی میں حصہ دار ہیں اور وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اْن کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے اور جاری صورتحال میں ہنگامی بنیادوں پر ان کی ہر ممکن مدد کی جائے۔
وزیر اعلیٰ کے حکم پر ہر مزدور کو 12کلو چاول یا 12 کلو آٹا فی کس مفت فراہم کیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ انہیں نقد بھی 500 روپے امداد کے طور دیے جایئں گے۔یہ سب فوری امداد کے طور کیا جارہا ہے جس میں حکومت کو کل ملاکر تقریباً 30 کروڑ روپئے کا خرچ آئے گا۔
ان میں ایسے مزدور بھی شامل ہیں جو تلنگانہ سرکار کے ساتھ بحیثیت فوڈ سیکیورٹی کارڈ ہولڈر رجسٹر نہیں ہیں۔ ضلع کلکٹروں کو یہ بھی ہدایت جاری کی گئی کہ اگر مزدوروں کو کھانا پکانے کی سہولیت نہ ہو تو انہیں پکے پکائے کھانے کے ساتھ ساتھ علاج ومعالجے اور دیگر بنیادی سہولیات دی جایئں۔
وزیر اعلیٰ کو ان مزدوروں سے متعلق اعدادوشمار کی صحیح جانکاری نہ بھی ہو لیکن امید یہی کی جا سکتی ہے کہ اگر تعداد اندازوں سے زیادہ بھی ہو تب بھی یہ ساری سہولیات اْن کو بہم رکھیں جائیں گی۔
اس بات میں کوئی بھی شک و شبہ نہیں ہے کہ مزدوروں کے حوالے سے ملک کو درپیش موجودہ مسئلہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور انہیں ہر قیمت پر امداد بہم رکھنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ بعض حکومتیں اور پنچائتیں پہلے ہی 12کلو چاول اور 500 روپے فی کس مزدوروں میں تقسیم کر رہی ہیں۔تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ حکومتیں کس طرح سے سر پر کھڑی فصل جو ہفتے دس دنوں کے اندر تیار ہونے جا رہی ہے کو کاٹنے اور چاول کی ملوں کو چلانے کے بارے میں کیا کریں گی۔
کسانوں کی امداد کے حوالے سے حکوت کا رد عمل
وزیر اعلیٰ نے کووڈ-19 کے سبب لاک ڈاؤن کی جاری غیر معمولی سنگین صورتحال کے دوران ہی کسانوں کی امداد اور رعایتوں کی بات کی ہے۔ زراعتی شعبے کے لیے آبپاشی کے لیے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری کے بعد حال ہی میں تشکیل دی گئی نئی ریاست تلنگانہ میں اب رواں برس کے دوران 1.05کروڑ ٹن چاول کی کثیر پیداوار حاصل ہونے کے اندازے لگائے جا رہے تھے۔
یہاں پچاس لاکھ ایکڑ وسیع ز مین پر ربیع کی فصل لگائی گئی تھی جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ حکومت نے پہلے ہی اس فصل کو کاٹنے کے لیے درکار مشینوں کے بارے میں اعداد و شمار بھی تیار کیے تھے اور سرکاری عہدہ داروں کو فصل کاٹنے کے لئے درکار کاٹنے کے آلات سے لیس ٹریکٹر حاصل کرنے اور انہیں قصبہ جات سے مختلف علاقوں میں دھان کے کھیتوں تک منتقل کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ خامیوں کو دور کرنے کے لئے تامل ناڈو سے بھی فصل کاٹنے کی 1500 مشینیں درآمد کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔
پریس سے ایک ملاقات کے دوران وزیراعلی کے سی آر نے کہا کہ چونکہ بازار میں گراوٹ آئی ہے اس لئے یہ ہماری حکومت کا کام ہے کہ کسانوں کو راحت پہنچانے کے لئے انہیں کم سے کم مناسب قیمت دے کر اْن کی فصلوں کو خریدا جائے۔
کسانوں کو مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متعلقہ دیہات سے آپ لوگوں کی فصلیں حکومت کی طرف سے حاصل کی جائیں گی اور اس سلسلے میں محکمے کی طرف سے آپ کو کوپن ایشو کئے جایئں گے اور محکمہء زراعت آپ سے طے شدہ وقت پر آپ سے آپ کی فصلیں حاصل کرے گا۔ فصلیں حاصل کرنے کا یہ عمل اپریل کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے جا رہا ہے جو مئی کے وسط تک جاری رہے گا۔
انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ فصل کی قیمتوں کی ادائیگی میں کوئی مسئلہ حائل نہیں ہوگا اور اگر کسان اپنے پاس بک اور کھاتہ نمبر دے دیں تو ان کا پیسہ ان کے کھاتوں میں براہِ راست متقل کیا جائے گا۔اس سلسلے میں حکومت نے سول سپلائز کارپوریشن کو 30,000کروڑ روپے مختص رکھے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ اس دوران تمام بازار اگرچہ بند رہیں گے تاہم سماجی دوری کے تمام احتیاطی تدابیر کے سختی سے عمل میں لاتے ہوئے کسانوں سے اْن کی فصل اْن کے ہی دیہاتوں سے وصول کی جائے گی۔ اْنہوں نے کسانوں پر زور دیا کہ وہ سڑکوں پر آمدورفت کو روکنے کی غرض سے رکاوٹیں کھڑا کرنے سے گریز کریں۔
حکومت کو اندازہ ہے کہ حاصل شدہ چاول کے لئے 70 لاکھ بوریاں درکار ہوں گی لیکن حکومت کے پاس فی الوقت صرف 35لاکھ بوریاں ہیں اور حکومت کے سامنے سنگین مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کولکتہ میں ٹاٹھ کی بوریاں بنانے والے کارخانے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے سرکار متبادل انتظام کی تلاش میں ہے۔
وزیر اعلیٰ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی سے بات کریں گے۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تلنگانہ کی زراعتی معشیت کا دارومدار زیادہ تر بہاری مزدوروں پر ہے۔ تلنگانہ میں چاول کی ملوں کا مکمل انحصار بہار سے آنے والے مزدوروں پر ہے جو کہ یہاں کی افرادی قوت کا 90 فیصد ہے۔
ان میں حمالی اور ٹرکوں پر چاول لادنے والے مزدور شامل ہیں۔ ان میں سے کافی لوگ پہلے ہے ہولی کے تہوار کے لئے اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں اور باقی لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ایسے میں مزدوروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے چاول سے متعلق معیشیت کے گر جانے کا امکان ہے۔
اگرچہ فصل کاٹنے کے لئے درکار ساز و سامان اور بوریوں کو زیادہ سے زیادہ قیمتِ فروخت پر حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن لاکھوں نقل مکاں مزدوروں کی عدم موجودگی کا مسئلہ نہایت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے جو گاؤں کے کھیتوں سے فصل کو ٹرکوں تک اور چاول ملوں سے گوداموں تک اسے اپنے سروں پر لاد کر ڈھوتے ہیں۔
ایسے میں تلنگانہ کو بہاری مزدوروں کی اشد ضرورت ہے، مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس معاملے پر ان کے چیف سیکریٹری بہار کے اپنے ہم منصب سے ملاقات کر کے اْن سے مزدوروں کی واپسی کی گذارش کریں گے اور اگر ضرورت پڑے تو مزدوروں کو واپس لانے کے لئے وہ مرکز سے بھی خصوصی ریل گاڑیاں چلانے کی بات کریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نقل مکاں مزدروں کی اہمیت کیا ہے یہ بتانے کے لئے ہمیں کووڈ-19 کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہمیں آرام دہ زندگی میسر رکھنے اور ہماری معیشت کو محفوظ رکھنے میں ان مزدوروں کی کتنی شراکت داری ہے۔ ادارے کبھی بھی ایسے بطخ کو حلال نہیں کر سکتے ہیں جو سونے کا انڈا دیتی ہوں، اس لیے ضروری ہے کہ ان کا حوصلہ بڑھایا جائے، ان کی پزیرائی کی جائے، ان کا خیال رکھا جائے اور انہیں کھانا اور چھت میسر کی جائے تاکہ وہ سوال کیے بغیر پیداور کو آگے بڑھاتے رہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اب بھی انہیں باقی شہریوں کی طرح حقوق اور عزت کے حامل لوگوں کے طور نہیں تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ انہیں ایسے لوگوں کا زمرہ تصور کیا جاتا ہے جو فلاحی اسکیموں اور خیرات پر پلتے ہیں۔