وزیراعظم ہند کی طرف سے کووڑ19-کے پیش نظر اچانک سے اکیس دن کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد جو انکشافات ہوئے اْن میں سے ایک یہ ہے کہ ملک میں اْن مزدوروں کی تعداد اور اور ان کی حالت زار منظر عام پرآگئی ہے کہ وہ کس کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ یہ لوگ اینٹ بھٹہ و تعمیراتی مزدوروں، مٹھائی دکانوں پر بندھوا مزدوروں کے طور پر بندرگاہوں پر سر پر بوجھ ڈھونے والوں۔ فیکٹری و زراعتی مزدوروں کی حیثیت سے کام کر کے بمشکل زندہ گزارتے ہیں۔
یہ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ یا اکیلے ہی ملک کے مختلف حصوں میں زراعتی مزدوروں کے طور پر کام کرنے کے لئے نقل مکانی کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بہار، جھارکنڈ، اڈیسہ اور مشرقی اتر پردیش سے ہوتاہے۔ جو اپنا خون پسینہ بہا کر زبردست محنت کے ذریعے ایک نئے خوشحال ملک کی تعمیر کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ لوگ پسماندہ ہیں جن کی کسی کو پرواہ نہیں ہے اور جو کسی گنتی ہی میں نہیں ہیں۔ تاہم ان حالات کے باوجود یہ لوگ کسی نہ کسی طرح زندہ رہتے ہیں۔ ظالمانہ طریقے سے کئے گئے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ان کی جو تصویریں ٹیلیویژن، سوشل میڈیا اور اخبارات پر دیکھنے کو ملیں ہیں وہ دل دہلانے والی تصویریں بیان کرتی ہیں کس طرح ان لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے سینکڑوں میل کی مسافت پیدل طے کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے۔
انفردای طور پر کئی افراد اورغیرسرکاری اداروں سے وابستہ لوگوں کے ضمیروں کو جنجھوڑ کے رکھ دیا جنہوں نے ان کے لئے کھانے پینے، چھت اور پیسوں کی صورت میں مدد فراہم کی۔ چند ریاستی سرکاروں نے بھی اب آخر کار ان کی حالت زار کی طرف توجہ دینا شروع کر دیا ہے۔
مفاد عامہ سے متعلق ایک درخواست جس میں ان لاچار لوگوں کے لئے جو اکیس دن کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ان کے لئے ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروریات کی مانگ کی گئی تھی پرکاروائی کرتے ہوئے کہا گیا کہ کورونا وائرس پر کاروائی کرتے ہوئے عدالت عظمٰی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ لوگوں میں پھیلا خوف و ہراس دراصل کورونا وائرس وباکے ڈر سے زیادہ ڈراؤنا ہے۔عدالت نے حکومت سے ایک رپورٹ کامطالبہ کیا جس میں بتایا جائے کہ مزدوروں کی شہروں سے اچانک سے گھر واپسی کی صورتحال کے حوالے سے کیا کچھ کیا جا رہا ہے۔
مہاجر مزدوروں کے حوالے سے تلنگانہ حکومت کا رد عمل
تلنگانہ حکومت نے تقریباًساڑھے تین لاکھ مہاجر مزدوروں جن میں زیادہ تر بہار، جھارکنڈ اور اْڑیسہ سے ہیں اور ان کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے بہت سے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان اقدامات کا خلاصہ ہندی زبان میں کیا تاکہ مزدوروں میں اعتماد اور حوصلہ بحال کیا جاسکے۔اْنہوں نے کہا کہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کتنے بھی کروڑ خرچ کرنے پڑیں ہم کریں گیں اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جتنا بھی پیسہ ضرورت پڑے انتظام کیا جائے گا۔آپ مطمئن رہیں کسی بھی قیمت پر تلنگانہ یا کسی اور ریاست میں کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔انہوں نے مزدوروں سے یہ بھی گذارش کی کہ وہ تلنگانہ میں ہی رہیں اور یہاں سے اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوشش نہ کریں۔انہوں نے مزدوروں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں تلنگانہ کی تعمیر میں مدد کرنے کے لئے یہاں ہیں اس لئے آپ بھی ہمارے خاندان کے ہی فرد ہیں۔ آپ لوگ کسی بھی طرح کی فکر نہ کریں ۔ہم آپ کا خیال رکھنے میں کسی بھی طرح کی کمی نہیں رکھیں گے
30مارچ کو حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے حکم نامے سے بھی وزیر اعلیٰ کے احساسات کی عکاسی ہوتی ہے کہ مہاجر مزدور تلنگانہ کی تعمیر و ترقی میں حصہ دار ہیں اور وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اْن کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے اور جاری صورتحال میں ہنگامی بنیادوں پر ان کی ہر ممکن مدد کی جائے۔وزیر اعلیٰ کے حکم پر ہر مزدور کو 12کلو چاول یا 12کلو آٹا فی کس مفت فراہم کیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ انہیں نقد بھی500روپے امداد کے طور پر دئے جایئں گے ۔یہ سب فوری امداد کے طور پر کیا جارہا ہے جس پر حکومت کو کل ملاکر 29.96کروڑروپے کا خرچہ آئے گا۔ان میں ایسے مزدور بھی شامل ہیں جو تلنگانہ سرکار کے ساتھ بحیثیت فوڈ سیکیورٹی کارڈ ہولڈر رجسٹر نہیں ہیں۔ضلع کلکٹروں کویہ بھی ہدایت جاری کی گئی کہ اگر مہاجر مزدوروں کھانا پکانے کی سہولیت نہ ہو تو انہیںپکے پکائے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ علاج ومعالجے اور دیگر بنیادی سہولیات بہم رکھیں جایئں۔وزیر اعلیٰ کو ان مزدوروں سے متعلق اعدادوشمار کی صحیح جانکاری نہ بھی ہو لیکن امید یہی کی جا سکتی ہے کہ اگر تعداد اندازوں سے زیادہ بھی ہو تب بھی یہ ساری سہولیات اْن کو بہم رکھیں جایئں گی۔
اس بات میں کوئی بھی شک و شبہ نہیں ہے کہ مزدوروں کے حوالے سے ملک کو درپیش موجودہ مسئلہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور انہیں ہر قیمت پر امداد بہم رکھنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے ۔یہ بھی خبریں ہیں کہ بعض حکومتیں اور پنچایئتیں پہلے ہی 12کلو چاول اور 500روپے فی کس مزدوروں میں تقسیم کر رہی ہیں۔تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ حکومتیں کس طرح سے سر پر کھڑی فصل کو کو کاٹنے اور چاول کی ملوں کو چلانے کے بارے میں کیا کریں گی جو ہفتے دس دنوں کے اندرتیار ہونے جا رہی ہے ۔
کسانوں کی امداد کے حوالے سے حکوت کا رد عمل
وزیر اعلیٰ نے کووڈ 19- لاک ڈاؤن کی جاری غیر معمو لی سنگین صورتحال کے دوران ہی کسانوں کی امداد اور رعایتوں کی بات کی ہے۔زراعتی شعبے کے لئے آبپاشی کے لئے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری کے بعد حال ہی میںتشکیل دی گئی نئی ریاست تلنگانہ میں اب سال رواں کے دوران 1.05کروڑ ٹن چاول کی کثیر پیداوار حاصل ہونے کے اندازے لگائے جا رہے تھے۔یہاں پچاس لاکھ ایکڑ وسیع ز مین پر ربیع کی فصل لگائی گئی تھی جو ایک ریکارڈ ہے۔حکومت نے پہلے ہی اس فصل کو کاٹنے کے لئے درکار مشینوں کے بارے میں اعدادو شمار بھی تیار کئے گئے تھے اور سرکاری عہدہ داروں کو فصل کاٹنے کے لئے درکار کاٹنے کے آلات سے لیس ٹریکٹر حاصل کرنے اور انہیں قصبہ جات سے مختلف علاقوں میں دھان کے کھیتوں تک متقل کرنے کے لئے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔
کمیوں کو دور کرنے کے لئے تامل ناڈو سے بھی فصل کاٹنے کی1500 مشینیں درآمد کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔پریس سے ایک ملاقات کے دوران وزیر اعلی کے سی آر نے کہا کہ چونکہ بازار میں گراوٹ آئی ہے اس لئے یہ ہماری حکومت کا کام ہے کہ کسانوں کو راحت پہنچانے کے لئے انہیں کم سے کم مناسب قیمت دے کر اْن کی فصلوں کو خریدا جائے۔کسانوں کو مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متعلقہ دیہات سے آپ لوگوں کی فصلیں حکومت کی طرف سے حاصل کی جایئں گی اور اس سلسلے میں محکمے کی طرف سے آپ کو کوپن ایشو کئے جایئںگے اور محکمہء زراعت آپ سے طے شدہ وقت پر آپ سے آپ کی فصلیں حاصل کرے گا۔ٖ
فصلیں حاصل کرنے کا یہ عمل اپریل کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے جا رہا ہے جو مئی کے وسط تک جاری رہے گا۔انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ فصل کی قیمتوں کی ادایئگی میں کوئی مسئلہ حائل نہیں ہوگااور اگر کسان اپنے پاس بک اور کھاتہ نمبر دے دیں تو ان کا پیسہ ان کے کھاتوں میں براہِ راست متقل کیا جائے گا۔اس سلسلے میں حکومت نے سول سپلائز کارپوریشن کو 30,000کروڑ روپے مْختص رکھے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ اس دوران تمام بازار اگرچہ بند رہیں گے تاہم سماجی دوری کے تمام احتیاطی تدابیر کے سختی سے عمل میں لاتے ہوئے کسانوں سے اْن کی فصل اْن کے ہی دیہاتوں سے وصول کی جائے گی۔
اْنہوں نے کسانوں پر زور دیا کہ وہ سڑکوں پر آمدورفت کو روکنے کی غرض سے رکاوٹیں کھڑا کرنے سے گریز کریں۔حکومت کو اندازہ ہے کہ حاصل شدہ چاول کے لئے 70لاکھ بوریاں درکار ہوں گی لیکن حکومت کے پاس فی الوقت صرف 35لاکھ بوریاں ہیں اور حکومت کے سامنے سنگین مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کولکتہ میں ٹاٹھ کی بوریاں بنانے والے کارخانے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے سرکار متبادل انتظام کی تلاش میں ہے۔وزیر اعلیٰ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی سے بات کریں گے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تلنگانہ کی زراعتی معشیت کا دارومدار زیادہ تر بہاری مزدوروں پر ہے۔تلنگانہ میں چاول کی ملوں کا مکمل انحصار بہا ر سے آنے والے مزدوروں پر ہے جو کہ یہاں کی افرادی قوت کا 90فیصد ہے۔ ان میں حمالی اور ٹرکوں پر چاول لادنے مزدور شامل ہیں۔ ان میں سے کافی لوگ پہلے ہے ہولی کے تہوار کے لئے اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں اور باقی لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ایسے میں مزدوروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے چاول سے متعلق معیشیت کے گر جانے کا امکان ہے۔
اگرچہ فصل کاٹنے کے لئے درکار سازو سامان اور بوریوں کو زیادہ سے زیادہ قیمتِ فروخت پر حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن لاکھوں مہاجر مزدورون کی عدم موجودگی کے مسئلہ نہایت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے جو گاؤں کے کھیتوں سے فصل کو ٹرکوں تک اور چاول ملوں سے گوداموں تک اسے اپنے سروں پر لاد کر ڈھوتے ہیں۔ایسے میں تلنگانہ کو بہاری مزدوروں کی اشد ضرورت ہے ۔مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس معاملے پر اْن کے چیف سیکریٹری بہار کے اپنے ہم منصب سے ملاقات کر کے اْن سے مزدوری کی واپسی کی گذارش کریں گے اور اگر ضرورت پڑے تومزدوروں کو واپس لانے کے لئے وہ مرکز سے بھی خصوصی ریل گاڑیاں چلانے کی بات کریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاجر مزدروں کی اہمیت کیا ہے یہ بتانے کے لئے ہمیں COVID-19کی ضرورت پڑ رہی ہے۔یہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہمیں آرام دہ زندگی میسر رکھنے اور ہماری معیشت کو محفوظ رکھنے میں ان مزدوروں کی کتنی شراکت داری ہے۔ادارے کبھی بھی ایسے مرغی کو حلال نہیں کر سکتے ہیں جو سونے کا انڈا دیتے ہوں۔اس لئے ضروری ہے کہ ان کا حوصلہ بڑھائے جائے ، ان کی پزیرائی کی جائے، ان کا خیال رکھا جائے اور انہیں کھانا اور چھت میسر کی جائے تاکہ وہ سوال کئے بغیر پیداورکو آگے چلاتے رہیں۔المیہ یہ ہے کہ اب بھی انہیں باقی شہریوں کی طرح حقوق اور عزت کے حامل لوگوں کے طور پر تسلیم نہیں کیا جارہا ہے بلکہ انہیں ایسے لوگوں کا زمرہ تصور کیا جاتا ہے جو فلاحی اسکیموں اور خیرات پر پلتے ہیں ۔ مہاجر مزدوروں کو ہماری ضرورت نہیں ہےبلکہ یہ کہ ہم سب یکساں شہری ہیں اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں.