ETV Bharat / bharat

کورونا وائرس اور بیج پیدا کرنے والی کمپنیاں - کورونا وائرس اور بیج پیدا کرنے والی کمپنیاں

اندرا شیکھر سنگھ نے کورونا وائرس کے وبا کی وجہ سے بیج صنعت پر پڑنے والے اثرات پر کہا ہے کہ بیج اور اس سے منسلک سیکٹروں کو مقامی سطح پر ہراسانیوں کے علاوہ تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔سیڈ ہبس اور پیداواری مراکز پر دباؤ ہے کہ وہ بند رہیں ۔مزدور اور ان کے ساتھی اس موقع کا استعمال کرکے غیر منطقی مطالبات کررہے ہیں ۔ کچھ علاقوں میں راستوں کو بند کرکے مزدوروں کی آزادانہ نقل و حمل پر روک لگائی جا رہی ہے۔ایسے میں حکومت کو فوری طور پر آگے آنا چاہئے اور اتھارٹیز کی جانب سے تشدد اور ہراسانیوں پر روک لگانی چاہئے۔

کورونا وائرس اور بیج پیدا کرنے والی کمپنیاں
کورونا وائرس اور بیج پیدا کرنے والی کمپنیاں
author img

By

Published : Apr 2, 2020, 8:54 PM IST

ہماری بقا کا دارو مدار زراعت پر ہے اور اچھی فصل کا انحصار اچھے بیج پر ہے جو کسانوں کو منظم سیڈ سیکٹر ، پبلک و پرائیویٹ سے فراہم ہو تا ہے ۔اس وقت ہم چونکہ کورونا وائرس کے بحران سے نمٹ رہے ہیں ‘یہ ضروری ہے کہ کسانوں کو خریف سیزن کیلئے بروقت اچھے بیج اور دوسری چیزیں مہیا ہوں ۔

بھارت کو خریف سیزن میں 250 لاکھ کوئنٹل بیج کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اس بیج کی تیاری مارچ اور مئی کے مہینوں کے درمیان ہو تی ہے۔اس کی شروعات کسانوں کے کھیتوں سے ہو تی ہے جہاں بیج کو زرخیز بنانے کا عمل ماہر ٹیموں کی نگرانی میں ہو تا ہے ۔اس کے بعد بیجوں کی کٹائی ہوتی ہے، انہیں سکھایا جاتا ہے، اچھی بیج کا انتخاب ہو تا ہے ۔ اس کے بعد بیج کو پروسیسنگ پلانٹوں پر مزید کارروائی کیلئے بھیج دیا جاتا ہے، وہاں سے ٹیسٹنگ کیلئے ان کا رخ لیباریٹریوں کی جانب کیا جاتا ہے اور پھر جا کے ان کو کسانوں تک پہنچایا جاتا ہے ۔

اس سارے عمل میں وقت لگتا ہے اور چونکہ اس کا انحصار فطرت پر ہے۔ اس لئے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی ہے ۔بیج تیار کرنے کا یہ سارا عمل انتہائی پیچیدہ ہے جس کیلئے اس کے منسلک سیکٹروں کی مدد بھی درکار ہو تی ہے ۔ٹرانسپورٹ سے لیکر ٹیسٹنگ لیباریٹری اور پھر بیج کی پیکیجنگ، ان سب کا ایک کلیدی رول ہے ۔اور یہ بات ذہن نشین کیجئے کہ یہ سب اجتماعی طور پر کوروناوائرس کے حملے سے خود کو بچانے میں ناکام رہے ہیں۔

دریں اثنا انٹرنیشنل سیڈ فیڈریشن (آئی ایس ایف) نے ایک حالیہ بیان میں یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی (ای ایف ایس اے) سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن(سی ڈی سی)اور بی ایف آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے’’اس وقت اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ خوراک بشمول بیج کورونا وائرس کا ممکنہ ذریعہ یا اس کے پھیلاؤ کا راستہ ہے۔سطحیح جو حال ہی میں وائرس سے آلودہ ہوئیں ہوں ان کے ذریعے وائرس پھیل سکتا ہے لیکن ایسا ان سطحوں کے آلودہ ہونے کے بعد قلیل مدت عرصے تک رہے گا کیونکہ وائرس ماحول میں زیادہ دیر تک نہیں رہتا ہے‘‘۔

دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بیج وائرس کے داخل ہو نے کا کوئی دروازہ ہے ‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خوف وائرس سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔

وفاقی اور ریاستی حکومتوں نے لوگوں میں اس خوف پر قابو پانے کیلئے زراعت کے شعبے بشمول بیج، مزدو اور اس سے منسلک شعبوں کو استثنیٰ دے کر اچھا کام کیا ہے۔تلنگانہ، اتر پردیش اور کچھ دیگر ریاستیں اس ضمن میں کافی متحرک نظر آئی ہیں۔مختلف سیکٹروں کیلئے خصوصی پیکیجوں کا اعلان کیا گیا ہے ۔ریلوے کو ساتھ رکھ کر ٹرانسپورٹ سے جڑے مسائل کا ازالہ کیا گیا ہے ۔آئی سی اے آر نے ایگرو ایڈ وائزری جاری کی ہے جس میں صحت و صفائی اور سماجی دوری بنائے رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔لیکن اس سب کے باوجود بھی بیج کے شعبے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔

استثنیٰ ملنے کے باوجود بیج اور اس سے منسلک سیکٹروں کو مقامی سطح پر ہراسانیوں کے علاوہ تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔سیڈ ہبس اور پیداواری مراکز پر دباؤ ہے کہ وہ بند رہیں ۔مزدور اور ان کے ساتھی اس موقع کا استعمال کرکے غیر منطقی مطالبات کررہے ہیں ۔ کچھ علاقوں میں راستوں کو بند کرکے مزدوروں کی آزادانہ نقل و حمل پر روک لگائی جا رہی ہے ۔ٹرانسپورٹ خدمات کو بحال ہونے نہیں دیا جارہا ہے جبکہ ڈرائیوروں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے ۔بڑھتی اجرتوں کے علاوہ اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ انونٹری نقصانات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں ۔سیڈ سیکٹر میں مجموعی طور پرقیمتیں بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی اور درمیانہ درجے کی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔

ملک میں چھوٹی اور درمیانہ درجے کی بیج تیار کرنے والی کمپنیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جنہیں ایک دوسرے سے سخت مقابلہ ہے ۔یہ کمپنیاں اکثر اپنے کام کو متعدد خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو آؤٹ سورس کرتی ہیں جس میں بیجوں کو سکھانا، ان کی پیکنگ اور سٹوریج شامل ہے۔ان میں سے کئی بینکوں یا پھر نجی طور پر قرضہ دینے والوں سے پیسے لیتی ہیں تاکہ یہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔اگر قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی ہو جائیگا تو یہ ان کے معمول کے کام میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔

مثال کے طور پر اگر ایک ایس اینڈ ایم کمپنی نے ایک ہزار ٹن بیج تیار کئے ہیں تو اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ یہ اپنی اس پیدوار کا کم از کم 85 فیصد حصہ فروخت کرے تاکہ تھوڑا بہت منافع حاصل کر سکے ۔اگر کمپنی 80 فیصد بھی فروخت کرے تو صحیح معنوں میں اس کیلئے یہ کوئی بزنس نہیں ہوا۔یہ کمپنیاں بہت کم منافع پر کام کررہی ہیں ۔اگر ان کی پیدوار کا پندرہ سے بیس فیصد فروخت ہونے سے رہ جاتا ہے تو اس سے جڑے اخراجات بھی انہیں برداشت کرنے پڑتے ہیں جس سے ان کا مجموعی منافع کم ہو جاتا ہے ۔

ڈسٹریبیوٹر ریٹیلر نیٹ ورک بھی کوروناوائرس کے خوف کی وجہ سے متاثر ہو اہے اور اس کی وجہ سے کمپنیوں کی بکنگ میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو بیج ریٹیلر بیچتے ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائیگا ۔لیکن سب سے زیادہ متاثر اس سے کمپنیاں ہی ہوں گی جنہوں نے نجی اداروں سے قرضہ جات لئے ہیں ۔ان کیلئے قیمتیں بڑھ جائیں گی اور سود کی شرح میں بھی اضافہ ہو جائیگااور اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یہ کمپنیاں شدید مشکلات میں بھی پڑ جائیں۔

بڑی کمپنیوں کو بھی موجودہ بحران کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے لیکن فی الحال وہ ڈٹی ہوئی ہیں۔لیکن جہاں تک چھوٹی کمپنیوں کا تعلق ہے تو کورونا وائرس کا ان پر بڑا منفی اثر ہو گا ان میں سے بیشتر کمپنیاں بھارت میں ہی ہیں ۔

حکومت کو فوری طور پر آگے آنا چاہئے اور اتھارٹیز کی جانب سے تشدد اور ہراسانیوں پر روک لگانی چاہئے ۔سرکاری نوٹیفکیشن کے باجود کاشت کار ی سے جڑی دکانیں جن میں بیج اور کھاد وغیرہ کی دکانیں شامل ہیں کو بند رکھنے پر مجبور کررہی ہے۔اس ضمن میں پولیس کیلئے فوری طور پر ایک سخت نوٹیفکیشن جاری کی جانی چاہئے ۔

ریلوے کو ایک بڑا رول ادا کرنا ہو گا۔پہلے ریلوے کو کاشت کاری کے سامان جن میں بیج، کھاد و غیرہ شامل ہے انہیں سیڈ ہبس (seed hubs) سے مختلف ریاستوں کو پہنچنا ہو گا ۔اس کے علاوہ اسے بڑے شہروں تک اناج اور تازہ پیداوار پہنچانی ہو گی ۔اس مقصد کیلئے اے سی و غیر اے سی مسافر کوچوں کو بھی استعمال میں لایا جانا چاہئے ۔اس سے جہاں ریلوے کی آمدنی بڑھ جائے گی وہیں فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے پائی جا رہی فکر و تشویش کا بھی ایڈریس کیا جا سکے گا۔

ا س وقت ایگری انپٹ(agri-input ) کا پورا نظام ٹھپ ہے ۔اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام مینو فکچرنگ یونٹوں اور سب ٹریڈوں کو کام کرنے دے جو agri-input سے منسلک ہیں ۔مثال کے طور پر بیج کی صنعت پیکیجنگ اور کاغذ کے یونٹوں پر منحصر ہے اس لئے ان یونٹوں کو بھی کام کرنے دیا جانا چاہئے ۔

آخر میں حکومت کو بیج انڈسٹری کو متحرک کرنے کیلئے ایک پیکیج کا اعلان کرنا چاہئے جس میں خاص توجہ چھوٹی اور درمیانہ درجے کی کمپنیوں پر ہو گی ۔اس پیکیج میں کم سود یا بغیر سود کے قرضہ جات کی فراہمی شامل ہے ۔

ہم ایک خوفناک دور سے گزر رہے ہیں ۔اس میں ہمیں رہنمائی کیلئے ہمت اور سچائی کی ضرورت ہے ۔ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلے لینے ہوں گے تاکہ کورونا وائرس زراعت اور خوراک کی سپلائی میں کسی خطرے کے طور پر ابھر کر سامنے نہ آجائے ۔

ہماری بقا کا دارو مدار زراعت پر ہے اور اچھی فصل کا انحصار اچھے بیج پر ہے جو کسانوں کو منظم سیڈ سیکٹر ، پبلک و پرائیویٹ سے فراہم ہو تا ہے ۔اس وقت ہم چونکہ کورونا وائرس کے بحران سے نمٹ رہے ہیں ‘یہ ضروری ہے کہ کسانوں کو خریف سیزن کیلئے بروقت اچھے بیج اور دوسری چیزیں مہیا ہوں ۔

بھارت کو خریف سیزن میں 250 لاکھ کوئنٹل بیج کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اس بیج کی تیاری مارچ اور مئی کے مہینوں کے درمیان ہو تی ہے۔اس کی شروعات کسانوں کے کھیتوں سے ہو تی ہے جہاں بیج کو زرخیز بنانے کا عمل ماہر ٹیموں کی نگرانی میں ہو تا ہے ۔اس کے بعد بیجوں کی کٹائی ہوتی ہے، انہیں سکھایا جاتا ہے، اچھی بیج کا انتخاب ہو تا ہے ۔ اس کے بعد بیج کو پروسیسنگ پلانٹوں پر مزید کارروائی کیلئے بھیج دیا جاتا ہے، وہاں سے ٹیسٹنگ کیلئے ان کا رخ لیباریٹریوں کی جانب کیا جاتا ہے اور پھر جا کے ان کو کسانوں تک پہنچایا جاتا ہے ۔

اس سارے عمل میں وقت لگتا ہے اور چونکہ اس کا انحصار فطرت پر ہے۔ اس لئے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی ہے ۔بیج تیار کرنے کا یہ سارا عمل انتہائی پیچیدہ ہے جس کیلئے اس کے منسلک سیکٹروں کی مدد بھی درکار ہو تی ہے ۔ٹرانسپورٹ سے لیکر ٹیسٹنگ لیباریٹری اور پھر بیج کی پیکیجنگ، ان سب کا ایک کلیدی رول ہے ۔اور یہ بات ذہن نشین کیجئے کہ یہ سب اجتماعی طور پر کوروناوائرس کے حملے سے خود کو بچانے میں ناکام رہے ہیں۔

دریں اثنا انٹرنیشنل سیڈ فیڈریشن (آئی ایس ایف) نے ایک حالیہ بیان میں یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی (ای ایف ایس اے) سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن(سی ڈی سی)اور بی ایف آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے’’اس وقت اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ خوراک بشمول بیج کورونا وائرس کا ممکنہ ذریعہ یا اس کے پھیلاؤ کا راستہ ہے۔سطحیح جو حال ہی میں وائرس سے آلودہ ہوئیں ہوں ان کے ذریعے وائرس پھیل سکتا ہے لیکن ایسا ان سطحوں کے آلودہ ہونے کے بعد قلیل مدت عرصے تک رہے گا کیونکہ وائرس ماحول میں زیادہ دیر تک نہیں رہتا ہے‘‘۔

دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بیج وائرس کے داخل ہو نے کا کوئی دروازہ ہے ‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خوف وائرس سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔

وفاقی اور ریاستی حکومتوں نے لوگوں میں اس خوف پر قابو پانے کیلئے زراعت کے شعبے بشمول بیج، مزدو اور اس سے منسلک شعبوں کو استثنیٰ دے کر اچھا کام کیا ہے۔تلنگانہ، اتر پردیش اور کچھ دیگر ریاستیں اس ضمن میں کافی متحرک نظر آئی ہیں۔مختلف سیکٹروں کیلئے خصوصی پیکیجوں کا اعلان کیا گیا ہے ۔ریلوے کو ساتھ رکھ کر ٹرانسپورٹ سے جڑے مسائل کا ازالہ کیا گیا ہے ۔آئی سی اے آر نے ایگرو ایڈ وائزری جاری کی ہے جس میں صحت و صفائی اور سماجی دوری بنائے رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔لیکن اس سب کے باوجود بھی بیج کے شعبے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔

استثنیٰ ملنے کے باوجود بیج اور اس سے منسلک سیکٹروں کو مقامی سطح پر ہراسانیوں کے علاوہ تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔سیڈ ہبس اور پیداواری مراکز پر دباؤ ہے کہ وہ بند رہیں ۔مزدور اور ان کے ساتھی اس موقع کا استعمال کرکے غیر منطقی مطالبات کررہے ہیں ۔ کچھ علاقوں میں راستوں کو بند کرکے مزدوروں کی آزادانہ نقل و حمل پر روک لگائی جا رہی ہے ۔ٹرانسپورٹ خدمات کو بحال ہونے نہیں دیا جارہا ہے جبکہ ڈرائیوروں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے ۔بڑھتی اجرتوں کے علاوہ اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ انونٹری نقصانات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں ۔سیڈ سیکٹر میں مجموعی طور پرقیمتیں بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی اور درمیانہ درجے کی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔

ملک میں چھوٹی اور درمیانہ درجے کی بیج تیار کرنے والی کمپنیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جنہیں ایک دوسرے سے سخت مقابلہ ہے ۔یہ کمپنیاں اکثر اپنے کام کو متعدد خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو آؤٹ سورس کرتی ہیں جس میں بیجوں کو سکھانا، ان کی پیکنگ اور سٹوریج شامل ہے۔ان میں سے کئی بینکوں یا پھر نجی طور پر قرضہ دینے والوں سے پیسے لیتی ہیں تاکہ یہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔اگر قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی ہو جائیگا تو یہ ان کے معمول کے کام میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔

مثال کے طور پر اگر ایک ایس اینڈ ایم کمپنی نے ایک ہزار ٹن بیج تیار کئے ہیں تو اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ یہ اپنی اس پیدوار کا کم از کم 85 فیصد حصہ فروخت کرے تاکہ تھوڑا بہت منافع حاصل کر سکے ۔اگر کمپنی 80 فیصد بھی فروخت کرے تو صحیح معنوں میں اس کیلئے یہ کوئی بزنس نہیں ہوا۔یہ کمپنیاں بہت کم منافع پر کام کررہی ہیں ۔اگر ان کی پیدوار کا پندرہ سے بیس فیصد فروخت ہونے سے رہ جاتا ہے تو اس سے جڑے اخراجات بھی انہیں برداشت کرنے پڑتے ہیں جس سے ان کا مجموعی منافع کم ہو جاتا ہے ۔

ڈسٹریبیوٹر ریٹیلر نیٹ ورک بھی کوروناوائرس کے خوف کی وجہ سے متاثر ہو اہے اور اس کی وجہ سے کمپنیوں کی بکنگ میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو بیج ریٹیلر بیچتے ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائیگا ۔لیکن سب سے زیادہ متاثر اس سے کمپنیاں ہی ہوں گی جنہوں نے نجی اداروں سے قرضہ جات لئے ہیں ۔ان کیلئے قیمتیں بڑھ جائیں گی اور سود کی شرح میں بھی اضافہ ہو جائیگااور اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یہ کمپنیاں شدید مشکلات میں بھی پڑ جائیں۔

بڑی کمپنیوں کو بھی موجودہ بحران کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے لیکن فی الحال وہ ڈٹی ہوئی ہیں۔لیکن جہاں تک چھوٹی کمپنیوں کا تعلق ہے تو کورونا وائرس کا ان پر بڑا منفی اثر ہو گا ان میں سے بیشتر کمپنیاں بھارت میں ہی ہیں ۔

حکومت کو فوری طور پر آگے آنا چاہئے اور اتھارٹیز کی جانب سے تشدد اور ہراسانیوں پر روک لگانی چاہئے ۔سرکاری نوٹیفکیشن کے باجود کاشت کار ی سے جڑی دکانیں جن میں بیج اور کھاد وغیرہ کی دکانیں شامل ہیں کو بند رکھنے پر مجبور کررہی ہے۔اس ضمن میں پولیس کیلئے فوری طور پر ایک سخت نوٹیفکیشن جاری کی جانی چاہئے ۔

ریلوے کو ایک بڑا رول ادا کرنا ہو گا۔پہلے ریلوے کو کاشت کاری کے سامان جن میں بیج، کھاد و غیرہ شامل ہے انہیں سیڈ ہبس (seed hubs) سے مختلف ریاستوں کو پہنچنا ہو گا ۔اس کے علاوہ اسے بڑے شہروں تک اناج اور تازہ پیداوار پہنچانی ہو گی ۔اس مقصد کیلئے اے سی و غیر اے سی مسافر کوچوں کو بھی استعمال میں لایا جانا چاہئے ۔اس سے جہاں ریلوے کی آمدنی بڑھ جائے گی وہیں فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے پائی جا رہی فکر و تشویش کا بھی ایڈریس کیا جا سکے گا۔

ا س وقت ایگری انپٹ(agri-input ) کا پورا نظام ٹھپ ہے ۔اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام مینو فکچرنگ یونٹوں اور سب ٹریڈوں کو کام کرنے دے جو agri-input سے منسلک ہیں ۔مثال کے طور پر بیج کی صنعت پیکیجنگ اور کاغذ کے یونٹوں پر منحصر ہے اس لئے ان یونٹوں کو بھی کام کرنے دیا جانا چاہئے ۔

آخر میں حکومت کو بیج انڈسٹری کو متحرک کرنے کیلئے ایک پیکیج کا اعلان کرنا چاہئے جس میں خاص توجہ چھوٹی اور درمیانہ درجے کی کمپنیوں پر ہو گی ۔اس پیکیج میں کم سود یا بغیر سود کے قرضہ جات کی فراہمی شامل ہے ۔

ہم ایک خوفناک دور سے گزر رہے ہیں ۔اس میں ہمیں رہنمائی کیلئے ہمت اور سچائی کی ضرورت ہے ۔ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلے لینے ہوں گے تاکہ کورونا وائرس زراعت اور خوراک کی سپلائی میں کسی خطرے کے طور پر ابھر کر سامنے نہ آجائے ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.