مسٹر شاہ نے بل ایوان میں پیش کرنے سے پہلے اپوزیشن پارٹیوں کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'جب آزادی ملی تب مذہب کی بنیاد پر کانگریس ملک کی تقسیم نہیں کرتی تو اس بل کی ضرورت نہیں پڑتی'۔
ان کے اتنا کہتے ہی کانگریس اور کئی دیگر پارٹیوں کے اراکین اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر زور زور سے ہنگامہ کرنے لگے۔ اس پر مسٹر شاہ نے اپنا الزام ایک مرتبہ دہراتے ہوئے کہا کہ 'ہاں مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کانگریس پارٹی نے کی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ' یہ بل منطقی درجہ بندی کی بنیاد پر لایا گیا ہے۔ اس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو، بودھ، سکھ، پارسی اور عیسائی برادری کے لوگوں کو بھارتی شہریت دینے کا خصوصی التزام اس لیے کیا گیا ہے کہ کیونکہ یہ تینوں ممالک میں آئین کے تحت اسلام کو قومی مذہب اعلان کیا گیا ہے اور وہاں دیگر برادری کے لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔'
وزیر داخلہ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان 1950 میں نہرو۔لیاقت معاہدہ ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے اپنے یہاں اقلیتوں کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ہمارے یہاں اس کا پالن کیا گیا لیکن پاکستان اور بعد میں پاکستان سے الگ ہوئے بنگلہ دیش میں ان پر ظلم کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں آج بھی مذہبی اقلیتوں پر ظلم جاری ہے۔ اس لیے 'مذہب کی بنیاد پر استحصال اقلیتوں کو شہریت دینے کے لیے یہ بل لایا گیا ہے'۔
مسٹر شاہ نے ایوان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان ممالک کے مسلمان بھی قانون کی بنیاد پر شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اور ان کے درخواست پر طریقہ کار کے اعتبار سے غور کیا جائے گا۔