ETV Bharat / bharat

شہریت ترمیمی بل پر ایوان میں کس نے کیا کہا؟ - کانگریس

لوک سبھا میں حزب اختلاف جماعتوں نے شہریت ترمیمی کو آئین کی روح کے خلاف قرار دیتے ہوئے برسر اقتدار جماعت پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

شہریت ترمیمی بل پر ایوان میں کس نے کیا کہا؟
شہریت ترمیمی بل پر ایوان میں کس نے کیا کہا؟
author img

By

Published : Dec 9, 2019, 11:36 PM IST

کانگریس کے سینیئر رہنما منیش تیواری نے شہریت ترمیمی بل پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ بل آئین کی کئی دفعات کی خلاف ورزی اور ڈاکٹر امبیڈکر کے ذریعہ تخلیق کئے گئے آئین کی روح کے خلاف ہے۔

منیش تیواری
منیش تیواری

انہوں نے کہا کہ 'برسراقتدار پارٹیاں اس بل کے سلسلے میں پرجوش ہیں اور پورا ملک ان کے اس تقسیم کاری جذبے کو سمجھ رہا ہے، ہمارے آئین میں سبھی شہریوں کے لیے یکساں بات لکھی گئی ہے لیکن یہ بل برابری کے حقوق سے لوگوں کو محروم کرتا ہے۔

کانگریس رہنما نے کہا کہ 'ملک کی تعمیر غیر جانبداری کی بنیاد پر رکھی گئی ہے لیکن اس بل میں صرف کچھ ہی مذاہب کے پناہ گزینوں کو شہریت حاصل کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'بل میں تضاد ہے اور حکومت کو اس میں موجود خامیوں کو دور کرکے سبھی شہریوں کو یکساں بنائے رکھنے کے آئینی حقوق کا پالن کرتے ہوئے اس بل کو دوبارہ سے لانا چاہیے۔

منیش تیواری نے اس بل کو حکومت کی بہت بڑی بھول قرار دیا اور کہا کہ 'پناہ گزینوں کو برابری کی نگاہ سے دیکھنا بھارت روایت ہے اور اس بل کو نئے سرے سے تیار کرکے حکومت کو ملک کی اس روایت کا خیال رکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 'سب کو یکساں حقوق دینا ہمارا فرض ہونا چاہیے اور پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا کام ان کے مذہب کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے راجندر اگروال نے حزب اختلاف جماعت کے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'تقسیم کے وقت جو پرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے اسے یاد رکھا جانا چاہیے اسی لیے پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ ہو رہا ہے اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ بل لایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دراندازوں کو پناہ گزین نہیں کہا جاسکتا، ملک اور ملک کے شہریوں کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے جو لوگ یہاں آئے ہیں انہیں پناہ گزین نہیں کہا جاسکتا ہے۔

راجیندر اگروال نے کانگریس پر وقت کے اعتبار سے پناہ گزینوں کی تعریف کرنے کا الزام لگاتے ہوئےکہا کہ 'کانگریس پارٹی کے لوگوں کو یاد کرنا چاہیے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے ملک میں پناہ گزینوں کو انصاف دینے کی بات کی تھی، یہاں تک کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی کہا تھا کہ پناہ گزینوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے اور اس لیے کانگریس کو اس بل کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

دراوڑ مینتر کزگم کے دیاندھی مارن نے کہا کہ 'مذہب کی بنیاد پر پناہ گزینوں کو شہریت نہیں دی جانی چاہیے، مسلمان پناہ گزینوں کو بھی شہریت کا حق دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر ہندو یا دیگر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو بھارت کو اسی کا طرح برتاؤ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بھارت اس شعبہ میں ایک سپر پاور ہے۔

دیاندھی مارن
دیاندھی مارن

ترنمول کانگریس کے ابھیشیک بینرجی نے شہریت ترمیمی بل کو فرقہ پرستی کا نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'ان کی پارٹی نفرت کی سیاست کی مخالفت کرتی رہے گی، انہوں نے قومی شہریت رجسٹر (این آر سی)کو نوٹ بندی کی طرح بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے غریبوں کا نقصان ہوگا۔

وائی ایس آر کانگریس کے رکن پارلیمان پی وی متھن ریڈی نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'بھارت نے ہمیشہ دوسرے ممالک سے مظالم کے شکار ہوکر آئے لوگوں کو پناہ دی ہے، پارسی اور تبت برادری اس کی مثال ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مسلمانوں میں بھی بوہرہ، احمدیہ اور دیگر برادریوں کو پناہ دینے کی ضرورت ہے۔

شیوسینا کے ونائک راؤت نے کہا کہ 'حکومت نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ ان تین ممالک سے کتنے لوگ آچکے ہیں اور کتنے لوگوں کو شہریت دی جانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'پناہ گزینوں کو شہریت ضرور دی جائے لیکن کوشش کی جائے کہ اس سے بھارت کے لوگوں کے حقوق پر اثر نا پڑے-

شیوسینا رکن پارلیمان نے سری لنکا کے تمل اور اقلیتی مسلمانوں کو بھی بھارتی شہریت دینے کی مانگ کی، انہوں نے کشمیری پنڈتوں کو جموں و کشمیر میں بسانے اور ان کی املاک پر حق دلائے جانے کی مانگ کی۔

جنتادل یونائیٹڈ کے راجیو رنجن سنگھ نے شہریت ترمیمی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ہندو، سکھ، بودھ، پارسیوں اور دیگر برادری کے لوگوں کے وقار پر اتنا سخت حملہ ہوا ہے کہ وہ اپنا ملک چھوڑ بھارت کی سرحد میں داخل ہونے کے لیے مجبور ہوگئے، وہ یہاں نا مکان خرید سکتے ہیں اور نا ہی روزگار کرسکتے ہیں، وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، انہیں شہریت دینے کے تعلق سے جو شبہات تھے اسے وزیر داخلہ نے دور کردیا ہے اور یہ بل کہیں سے بھی سیکولرازم کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔

بیجو جنتادل کی شرمٹھا سیٹھی نے کہا کہ 'اسے مذہب کے ترازو میں نہیں تولا جانا چاہیے۔ انہوں نے بھی اس میں سری لنکا کے مہاجرین کو شامل کرکے انہیں شہریت دینے کا مطالبہ کیا۔

سرمشٹھا سیٹھی نے شہریت ترمیمی بل کو سیاست سے بالاتر رکھنے اور مسلم لفظ کو شامل کرنے کی درخواست کی اور بل کے تئیں حمایت کا اظہار کیا۔

بہوجن سماج پارٹی کے افضال انصاری نے کہا کہ 'ان کی پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے بل کو آئین کے مخالف قرار دیا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ دیگر ممالک میں ہندو، سکھ وغیرہ اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کیا گیا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بھارت سے گئے مسلمانوں کو بھی وہاں مہاجر کہا گیا اور انہیں برابری کا درجہ نہیں دیا گیا، وہ بھی اتنے ہی متاثر ہیں، حکومت انہیں بھی مشروط شہریت دیتی، صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرنا ملک میں دوسری تقسیم کی وجہ بن سکتا ہے۔

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی سپریہ سلے نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) کے ناکام ہونے کی وجہ سے حکومت شہریت ترمیمی بل لیکر آئی ہے، انہوں کہا کہ ملک کے عام مسلمان آج غیر محفوظ اور خوفزدہ محسوس کر رہے ہیں۔

سپریہ سلے
سپریہ سلے

سپریہ سلے نے یہ جاننا چاہا کہ ان پناہ گزینوں کا کیا ہوگا جو کسی مذہب کو نہیں مانتے، بل میں نیپال، ڈنمارک یا میانمار کے لوگوں کو مذہبی استحصال سے بچنے کے لیے بھارت میں پناہ لینے کو کیوں شامل نہیں کیا گیا، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شہریت ترمیمی بل واپس لے اور اس پر نئے سرے سے غور کرے۔

تلنگانہ راشٹر سمیتی کے رکن پارلیمان نما ناگیشور راؤ نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اقلیتی برادری کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف ہے جبکہ سماج وادی پارٹی کے ایس ٹی حسن نے حکومت پر بل کے ذریعہ این آر سی کا رول بنانے کے الزام لگایا اور پوچھا کہ وہ کتنے مسلمانوں کو این آر سی یا اس بل کے ذریعہ درانداز قرار دیں گے۔

انہوں نے جاننا چاہا کہ اس بل کے بعد بھی جو لوگ شہریت حاصل نہیں کرسکیں گے ان کے ساتھ حکومت کیا کرے گی، انہیں کہاں بھیجا جائے گا؟

لوک جن شکتی پارٹی کے رہنما و مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل کہیں سے بھی سیکولرازم کے خلاف نہیں ہے اور اس کا بھارت کی اقلیتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

چراغ پاسوان
چراغ پاسوان

انڈین یونین مسلم لیگ کے رکن پارلیمان پی کے کنہالی کٹی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حکومت ایک کے بعد ایک مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے والے اقدامات کررہی ہے، کل زبان اور پرسوں کسی اور مختلف حالتوں کی بنیاد پر یہ ہوسکتا ہے۔

مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے ایس ونکٹیشن نے اسے یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'مذہب کی بنیاد پر حکومت کو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 برسوں سے تمل ناڈو میں رہ رہے سری لنکا سے آئے 54 ہزار پناہ گزینوں کو بھی بل کے دائرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔

بی جے پی کی سینیئر رہنما میناکشی لیکھی نے کہا کہ 'دنیا میں چالیس سے زیادہ ممالک کا مذہب اسلام ہے، تقریباً چالیس ممالک کا سرکاری مذہب عیسائی ہے لیکن ایک بھی ملک کا قومی مذہب ہندو توا نہیں ہے، ایسے میں دوسرے ممالک میں استحصال کے شکار ہندوؤں کو اگر بھارت بھی نہیں رکھے گا تو وہ کہاں جائیں گے؟

کانگریس کے سینیئر رہنما منیش تیواری نے شہریت ترمیمی بل پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ بل آئین کی کئی دفعات کی خلاف ورزی اور ڈاکٹر امبیڈکر کے ذریعہ تخلیق کئے گئے آئین کی روح کے خلاف ہے۔

منیش تیواری
منیش تیواری

انہوں نے کہا کہ 'برسراقتدار پارٹیاں اس بل کے سلسلے میں پرجوش ہیں اور پورا ملک ان کے اس تقسیم کاری جذبے کو سمجھ رہا ہے، ہمارے آئین میں سبھی شہریوں کے لیے یکساں بات لکھی گئی ہے لیکن یہ بل برابری کے حقوق سے لوگوں کو محروم کرتا ہے۔

کانگریس رہنما نے کہا کہ 'ملک کی تعمیر غیر جانبداری کی بنیاد پر رکھی گئی ہے لیکن اس بل میں صرف کچھ ہی مذاہب کے پناہ گزینوں کو شہریت حاصل کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'بل میں تضاد ہے اور حکومت کو اس میں موجود خامیوں کو دور کرکے سبھی شہریوں کو یکساں بنائے رکھنے کے آئینی حقوق کا پالن کرتے ہوئے اس بل کو دوبارہ سے لانا چاہیے۔

منیش تیواری نے اس بل کو حکومت کی بہت بڑی بھول قرار دیا اور کہا کہ 'پناہ گزینوں کو برابری کی نگاہ سے دیکھنا بھارت روایت ہے اور اس بل کو نئے سرے سے تیار کرکے حکومت کو ملک کی اس روایت کا خیال رکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 'سب کو یکساں حقوق دینا ہمارا فرض ہونا چاہیے اور پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا کام ان کے مذہب کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے راجندر اگروال نے حزب اختلاف جماعت کے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'تقسیم کے وقت جو پرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے اسے یاد رکھا جانا چاہیے اسی لیے پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ ہو رہا ہے اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ بل لایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دراندازوں کو پناہ گزین نہیں کہا جاسکتا، ملک اور ملک کے شہریوں کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے جو لوگ یہاں آئے ہیں انہیں پناہ گزین نہیں کہا جاسکتا ہے۔

راجیندر اگروال نے کانگریس پر وقت کے اعتبار سے پناہ گزینوں کی تعریف کرنے کا الزام لگاتے ہوئےکہا کہ 'کانگریس پارٹی کے لوگوں کو یاد کرنا چاہیے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے ملک میں پناہ گزینوں کو انصاف دینے کی بات کی تھی، یہاں تک کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی کہا تھا کہ پناہ گزینوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے اور اس لیے کانگریس کو اس بل کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

دراوڑ مینتر کزگم کے دیاندھی مارن نے کہا کہ 'مذہب کی بنیاد پر پناہ گزینوں کو شہریت نہیں دی جانی چاہیے، مسلمان پناہ گزینوں کو بھی شہریت کا حق دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر ہندو یا دیگر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو بھارت کو اسی کا طرح برتاؤ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بھارت اس شعبہ میں ایک سپر پاور ہے۔

دیاندھی مارن
دیاندھی مارن

ترنمول کانگریس کے ابھیشیک بینرجی نے شہریت ترمیمی بل کو فرقہ پرستی کا نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'ان کی پارٹی نفرت کی سیاست کی مخالفت کرتی رہے گی، انہوں نے قومی شہریت رجسٹر (این آر سی)کو نوٹ بندی کی طرح بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے غریبوں کا نقصان ہوگا۔

وائی ایس آر کانگریس کے رکن پارلیمان پی وی متھن ریڈی نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'بھارت نے ہمیشہ دوسرے ممالک سے مظالم کے شکار ہوکر آئے لوگوں کو پناہ دی ہے، پارسی اور تبت برادری اس کی مثال ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مسلمانوں میں بھی بوہرہ، احمدیہ اور دیگر برادریوں کو پناہ دینے کی ضرورت ہے۔

شیوسینا کے ونائک راؤت نے کہا کہ 'حکومت نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ ان تین ممالک سے کتنے لوگ آچکے ہیں اور کتنے لوگوں کو شہریت دی جانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'پناہ گزینوں کو شہریت ضرور دی جائے لیکن کوشش کی جائے کہ اس سے بھارت کے لوگوں کے حقوق پر اثر نا پڑے-

شیوسینا رکن پارلیمان نے سری لنکا کے تمل اور اقلیتی مسلمانوں کو بھی بھارتی شہریت دینے کی مانگ کی، انہوں نے کشمیری پنڈتوں کو جموں و کشمیر میں بسانے اور ان کی املاک پر حق دلائے جانے کی مانگ کی۔

جنتادل یونائیٹڈ کے راجیو رنجن سنگھ نے شہریت ترمیمی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ہندو، سکھ، بودھ، پارسیوں اور دیگر برادری کے لوگوں کے وقار پر اتنا سخت حملہ ہوا ہے کہ وہ اپنا ملک چھوڑ بھارت کی سرحد میں داخل ہونے کے لیے مجبور ہوگئے، وہ یہاں نا مکان خرید سکتے ہیں اور نا ہی روزگار کرسکتے ہیں، وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، انہیں شہریت دینے کے تعلق سے جو شبہات تھے اسے وزیر داخلہ نے دور کردیا ہے اور یہ بل کہیں سے بھی سیکولرازم کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔

بیجو جنتادل کی شرمٹھا سیٹھی نے کہا کہ 'اسے مذہب کے ترازو میں نہیں تولا جانا چاہیے۔ انہوں نے بھی اس میں سری لنکا کے مہاجرین کو شامل کرکے انہیں شہریت دینے کا مطالبہ کیا۔

سرمشٹھا سیٹھی نے شہریت ترمیمی بل کو سیاست سے بالاتر رکھنے اور مسلم لفظ کو شامل کرنے کی درخواست کی اور بل کے تئیں حمایت کا اظہار کیا۔

بہوجن سماج پارٹی کے افضال انصاری نے کہا کہ 'ان کی پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے بل کو آئین کے مخالف قرار دیا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ دیگر ممالک میں ہندو، سکھ وغیرہ اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کیا گیا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بھارت سے گئے مسلمانوں کو بھی وہاں مہاجر کہا گیا اور انہیں برابری کا درجہ نہیں دیا گیا، وہ بھی اتنے ہی متاثر ہیں، حکومت انہیں بھی مشروط شہریت دیتی، صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرنا ملک میں دوسری تقسیم کی وجہ بن سکتا ہے۔

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی سپریہ سلے نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) کے ناکام ہونے کی وجہ سے حکومت شہریت ترمیمی بل لیکر آئی ہے، انہوں کہا کہ ملک کے عام مسلمان آج غیر محفوظ اور خوفزدہ محسوس کر رہے ہیں۔

سپریہ سلے
سپریہ سلے

سپریہ سلے نے یہ جاننا چاہا کہ ان پناہ گزینوں کا کیا ہوگا جو کسی مذہب کو نہیں مانتے، بل میں نیپال، ڈنمارک یا میانمار کے لوگوں کو مذہبی استحصال سے بچنے کے لیے بھارت میں پناہ لینے کو کیوں شامل نہیں کیا گیا، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شہریت ترمیمی بل واپس لے اور اس پر نئے سرے سے غور کرے۔

تلنگانہ راشٹر سمیتی کے رکن پارلیمان نما ناگیشور راؤ نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اقلیتی برادری کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف ہے جبکہ سماج وادی پارٹی کے ایس ٹی حسن نے حکومت پر بل کے ذریعہ این آر سی کا رول بنانے کے الزام لگایا اور پوچھا کہ وہ کتنے مسلمانوں کو این آر سی یا اس بل کے ذریعہ درانداز قرار دیں گے۔

انہوں نے جاننا چاہا کہ اس بل کے بعد بھی جو لوگ شہریت حاصل نہیں کرسکیں گے ان کے ساتھ حکومت کیا کرے گی، انہیں کہاں بھیجا جائے گا؟

لوک جن شکتی پارٹی کے رہنما و مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل کہیں سے بھی سیکولرازم کے خلاف نہیں ہے اور اس کا بھارت کی اقلیتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

چراغ پاسوان
چراغ پاسوان

انڈین یونین مسلم لیگ کے رکن پارلیمان پی کے کنہالی کٹی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حکومت ایک کے بعد ایک مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے والے اقدامات کررہی ہے، کل زبان اور پرسوں کسی اور مختلف حالتوں کی بنیاد پر یہ ہوسکتا ہے۔

مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے ایس ونکٹیشن نے اسے یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'مذہب کی بنیاد پر حکومت کو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 برسوں سے تمل ناڈو میں رہ رہے سری لنکا سے آئے 54 ہزار پناہ گزینوں کو بھی بل کے دائرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔

بی جے پی کی سینیئر رہنما میناکشی لیکھی نے کہا کہ 'دنیا میں چالیس سے زیادہ ممالک کا مذہب اسلام ہے، تقریباً چالیس ممالک کا سرکاری مذہب عیسائی ہے لیکن ایک بھی ملک کا قومی مذہب ہندو توا نہیں ہے، ایسے میں دوسرے ممالک میں استحصال کے شکار ہندوؤں کو اگر بھارت بھی نہیں رکھے گا تو وہ کہاں جائیں گے؟

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.