ہانگ کانگ میں مکمل جمہوریت کی بحالی کے مطالبے کو لیکر پچھلے کئی ماہ سے جاری عوامی احتجاج کو دبانے کےلئے چین نے ’نیشنل سیکورٹی لاء‘ کے نام سے ایک متنازعہ قانون پاس کیا۔ اس نئے قانون کی رو سے علاحدگی کا مطالبہ کرنا، حکومت سے بغاوت کرنا، دہشت گردی کا ارتکاب کرنا یا غیر ملکی قوتوں کے ساتھ ملی بھگت کرنا سنگین جرم قرار پایا ہے۔ اس قانون کو نافذ کئے جانے کے بعد خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اب اس نیم خود مختاری کے حامل خطے یعنی ہانگ کانگ میں آمر چینی حکومت کی جانب سے شہری آزادی اور سیاسی آزادی سلب کردی جائے گی۔ ویسے بھی پہلے ہی تائیوان سے لیکر جنوبی و مشرقی سمندر اور بھارت کے ساتھ لگنے والی لائن آف ایکچیول کنٹرول پر چین کی جارحیت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہانگ کانگ میں جاری شورش کی جانب بین الاقوامی توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کی پاداش میں صرف پچھلے ایک سال کے دوران نو ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
چین کی سرکار کی جانب سے متعارف کئے گئے اس نئے قانون کو گزشتہ کئی ہفتوں سے بین الاقوامی سطح پر ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ لیکن چین نے اسے ملک کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہوئے عالمی سطح پر کی جانے والی مخالفت کو نظر انداز کردیا ہے۔ خبروں کے مطابق آج صبح بیجنگ میں نیشنل پیپلز کانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی نے اتفاق رائے کے ساتھ انسداد بغاوت کے اس نئے قانون کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ اب اس قانون کو ہانگ کانگ میں نافذ کیا جائے گا۔ اس قانون کی وجہ سے چین اور امریکہ کے درمیان تنائو میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ چین کے اس اقدام کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو ہانگ کانگ کی سرکار کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا پڑے گا۔ امریکہ نے بیجنگ کے اس اقدام کو چین اور برطانیہ کے درمیان طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، جسکی توثیق اقوام متحدہ نے بھی کی تھی ۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری مائیک پوئمپو نے سوموار کی رات اپنے بیان میں کہا، ’’اگر چین ہانگ کانگ کے لوگوں اور بین الاقوامی برادری کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اُن وعدوں کی پاسداری کرنی ہوگی، جو اس نے ہانگ کانگ کے لوگوں اور برطانیہ کے ساتھ 1984ء کی چین برطانیہ جوائنٹ ڈیکلریشن میں کیا تھا۔‘‘ برطانیہ اور تائیوان نے پہلے ہی کہا ہے کہ وہ اس قانون کی وجہ سے متاثر ہوجانے والے مظاہرین اور کارکنوں کو پناہ دیں گے۔
ہانگ کانگ میں لوگ سڑکوں پر کیوں نکل آئے؟
مجوزہ بل کو پہلی بار گزشتہ سال جون میں متعارف کرایا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر آکر اس کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ’ایک ملک، دو نظام‘‘ کے اصول کے تحت ہانگ کانگ کو حاصل اختیارات اور اس کی جوڈیشل خودمختاری کے لئے سم قاتل ہے۔ بعد ازاں اس بل کو ستمبر میں واپس لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سماجی سطح پر بے چینی جاری رہی۔ بغیر کسی لیڈر کے جاری اس عوامی تحریک کو اُس وقت مزید تقویت حاصل ہوئی جب نومبر میں منعقدہ انتخابات میں جمہوریت نواز لیڈروں کو اٹھارہ لوکل کونسل کی نشستوں میں سے سترہ حاصل ہوگئیں۔ بیجنگ نے جون 2019ء میں جمہویت حامی احتجاج کے خلاف جارحانہ مہم شروع کر رکھی تھی۔ لیکن یہ احتجاجی مہم اس سال مئی میں نیشنل سیکورٹی لاء کا ڈرافٹ متعارف کرانے کے ساتھ ہی شدت اختیار کرگئی۔
مظاہرین کے مطالبات کیا تھے؟
ہانگ کانگ کے لوگوں نے غیر معمولی احتجاجی مہم شروع کرتے ہوئے اپنے اُن حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا، جو مین لینڈ (چین) اس سے چھین رہا ہے۔ یہ مظاہرین نیشنل سیکورٹی لاء جسے انسداد دہشت گردی کے نام پر مرتب کیا گیا، کی مخالفت بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے مکمل جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا تاکہ وہ خود اپنا چیف ایگزیکٹو منتخب کرسکیں۔ اس کے علاوہ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ شہریوں کے خلاف پولیس تشدد کے واقعات کی آزادانہ تحقیق کےلئے ایک کمیٹی قائم کی جائے۔ تاہم مین لینڈ سے علاحدگی مظاہرین کی اکثریت کا مطالبہ نہیں تھا۔ نئے سیکورٹی لاء کی تفصیلات ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہیں لیکن خبروں کے مطابق اس قانون کے تحت مین لینڈ (چین) کو کئی دیگر اختیارات کے ساتھ ساتھ یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے سکولوں میں نیشنل سیکورٹی کے حوالے سے نصاب کی نگرانی کرے گا۔ اس نئے قانون کو ہانگ کانگ کی حکومت ہی نافذ کرے گی لیکن بیجنگ کو بعض صورتوں میں ہانگ کانگ کی حکومت کا تحتہ پلٹنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
ہانگ کانگ برطانوی راج میں تھا۔ اسے 1997ء میں ’’ایک ملک دو نظام‘‘ معاہدے کے تحت چین کو دیدیا گیا تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ہانگ کانگ کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ ہانگ کانگ سپیشل آٹونامس ریجن (ایچ کے ایس اے آر) کی اپنی جوڈیشری اور نظام انصاف ہے، جو مین لینڈ چین سے بالکل علاحدہ ہے۔ اس خطے کو اپنی اسمبلی قائم کرنے اور اظہار آزادی کے حقوق حاصل ہیں۔ ہانگ کانگ کا نظام اس کے اپنے بنیادی قوانین کے تحت چلایا جارہا ہے۔ نیشنل سیکورٹی کے حوالے سے بھی اس کے اپنے قوانین موجود ہیں۔ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے، یعنی جب سے ہانگ کانگ کو چین کے سپرد کیا گیا، اس خطے میں ایک آزادانہ پریس، خود مختار عدالتیں اور قانون ساز اسمبلی ہے۔ اس طرح کی آزادی چین میں کمونسٹ پارٹی کی حکومت میں کسی دوسری جگہ موجود نہیں ہے۔
حوالگی بل کو اس خود مختار خطے میں چینی صدر زی جن پنگ اور اس کی کمونسٹ پارٹی کے ایک آمرانہ اقدام سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اسے بیجنگ کے فیصلوں کے ناقدین کے لئے بھی ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ متعارف کرایا گیا نیشنل سیکورٹی لاء چین کی جانب سے مخالفین کو دبانے کا ایک ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان ناقدین کو عالمی قوتوں بالخصوص امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ نیا قانون ایک ایسے وقت میں نافذ ہوگیا ہے، جب ہانگ کانگ برطانیہ سے چین کی طرف منتقلی کی سالگرہ منانے جارہا ہے۔
امریکہ نے کیوں اور کیسے مخالفت کی؟
ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت سے ہانگ کانگ کے بھارت اور امریکی سمیت کئی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔ امریکہ نے 1992ء میں ہانگ کانگ پالیسی ایکٹ کے تحت خصوصی تعلقات قائم کئے۔ امریکہ کی اس قانون سازی کے تحت ہانگ کانگ کو تب تک امریکہ کی جانب سے مخصوص تعلقات رہیں گے جب تک چین میں اس خطے کو لیکر ’’ایک ملک، دو نظام‘‘ کے اصول پر قائم رہے گا۔ چین کی جانب سے نیا قانون متعارف کرانے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی دفاعی آلات ہانگ کانگ کو ایکسپورٹ کرنا روک دیا۔ امریکہ اپنی نیشنل سیکورٹی کے لئے یہ اقدام کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری مائیک پوئمپو کا کہنا ہے کہ وہ اب ہانگ کانگ کو یہ دفاعی آلات فراہم کرنے کا خطرہ نہیں مول سکتا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ یہ پیپلز لبریشن آرمی، جس کا بنیادی مقصد کمونسٹ پارٹی آف چین کی آمریت کی مدد کرنا ہے، کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔ دوسری جانب چین نے امریکی شہریوں کو ویزے فراہم کرنے پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس طرح سے چین آور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات بدترین دور میں داخل ہوگئے ہیں جبکہ دوسری جانب دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ مائیک پوئمپو نے مزید کہا، ’ ہمارے اقدامات چین کی حکومت کے خلاف ہیں، چین کے عوام کے خلاف نہیں۔ لیکن اب بیجنگ نے ہانگ کانگ کے حوالے سے دو نظام کے بجائے ایک نظام نافذ کررہا ہے، ہمیں بھی اپنے طریقہ کار پر غور کرنا پڑے گا۔ امریکہ کئی دیگر اقدامات بھی کرے گا اور ہانگ کانگ کی زمینی صورتحال کو اُجاگر کرنے کےلئے بھی اقدامات کرے گا۔‘‘