تاریخی شہر حیدرآباد کو عمارتوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔
حیدرآباد میں کئی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں جن میں چار مینار کو سب سے خوبصورت قرار دیا جاتا ہے۔
بانی شہر حیدرآباد اور پانچویں قطب شاہی بادشاہ محمد قلی قطب شاہ نے سن 1591ء میں شہر حیدرآباد کی بنیاد رکھی-
انجینیئر میر مومن استرودی کی نگرانی میں چارمینار میں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی گئی تھی۔
معروف مؤرخ انعام الرحمان غیور کے مطاق اس کا فن تعمیر نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے روضہ کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ایرانی طرز تعمیر کی طرح چارمینار کی خوبصورتی کے لیے خاص خیال رکھا گیا۔
چارمینار کے ہر حصے میں اس کی خوبصورتی نمایاں نظر آتی ہے۔ اس کے کمانوں اور دیواروں کو خوبصورت نقش و نگار سے سجایا گیا ہے۔
چارمینار کے میناروں کی بلندی 160 فٹ ہے، میناروں کے اندرونی حصے میں راستہ ہے۔ اسی راستے سے چارمینار کے اوپر چڑھا جاتا ہے اور شہر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے-
آصف جاہی چھٹے نظام میر محبوب علی خان کے دور میں 1889ء میں لندن سے چار مخصوص گھڑیاں لائی گئیں اور چارمینار کے درمیانی کمان کے ہر ایک جانب اوپری حصے میں نصب کی گئیں۔ یوں تو صرف ایک ہی گھڑی چار مینار کے مشرقی حصے میں لگانے کا ارادہ تھا لیکن بعد میں چار میناروں پر چار گھڑیاں نصب کردی گئیں۔
تلنگانہ حکومت کی جانب سے تاریخی ورثہ چارمینار کی تزئین کا کام جاری ہے اس میں ایک خاص قسم کی مٹی گچھ اور چنھا کا استعمال بھی کیا جارہا ہے- کچھ ماہ پہلے ایک مینار کا کچھ حصہ بوسیدہ ہو کر زمین بوس ہو گیا تھا۔
مزید پڑھیں : چارمینار کے تعلق سے حکام سنجیدہ، متعدد پروجیکٹ پر کام ہوگا
یہ کام مسلسل 3 برس سے جاری ہے، دو میناروں کا کام مکمل ہو چکا ہے اندرونی حصے اور کمانوں کا کام باقی ہے۔
چارمینار کے اطراف و اکناف کے راستے پیدل راہ گیروں کے لیے کھلے رکھے گئے ہیں۔
اب دیکھنا دلچسپ یہ ہوگا کہ حکومت یہ کام کب تک مکمل کرے گی؟