ETV Bharat / bharat

مرکزی پیکیج سے ریاستوں کی کایا نہیں پلٹ سکتی ہے!

کووِڈ-19 کی وبا نے ان ریاستوں کی پریشانیاں بڑھا دی ہیں جو پہلے ہی مرکز کی جانب سے کم امداد ملنے کی وجہ سے اور اپنے یہاں گھٹی ہوئی مالیات کی وجہ سے تباہ حال تھیں۔آٹھ ہفتوں سے جاری مکمل تالہ بندی (لاک ڈاون) نے صحت کی دیکھ بال اور بہبودی کے خرچے کی صورت میں انکی معیشتوں پر اضافی بوجھ ڈال کر ریاستوں کو گویا مفلوج کردیا ہے۔ زبردست مالی دشواریوں سے دوچار تقریباََ سبھی ریاستوں نے مرکز سے اضافی فنڈس کیلئے اپیل کی ہے۔ ایسے میں خود انحصاری کا منتر پڑھ رہی مرکزی سرکار کو ریاستوں کی مالی تباہ حالی کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔

مرکزی پیکیج سے ریاستوں کی کایا نہیں پلٹ سکتی ہے!
مرکزی پیکیج سے ریاستوں کی کایا نہیں پلٹ سکتی ہے!
author img

By

Published : May 21, 2020, 10:29 PM IST

وزرائے اعلیٰ نے ریاستوں کے مالی خسارے میں نرمی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ اضافی اخراجات برداشت کرسکیں۔فِسکل ریسپانسبلیٹی اینڈ بجٹ منیجمنٹ (ایف آر بی ایم) ایکٹ کے تحت ریاستوں کی ذمہ داری مالی خسارے (فِسکل ڈیفسٹ) کو تین فیصد سے کم رکھنے کی ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ریاستیں موجودہ مالی سال کیلئے مزید رعایتوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔

مرکز کی جانب سے بڑے طمطراق سے اعلان کردہ 20 لاکھ کروڑ کے مالی پیکیج سے کسی بھی ریاست کا بھلا نہیں ہونے والا ہے۔جہاں مرکزی وزیرِ خزانہ کا ریاستوں کی ادھار لینے کی صلاحیت (بارووِنگ کیپیسٹی) 5 فیصد تک بڑھانے کا اقدام قابلِ تعریف ہے وہیں اسکے لئے رکھی گئی شرائط نا قابلِ قبول ہیں۔اس مالی سال ریاستیں ،گذشتہ 3 فیصد حد کے تحت،کُل 6.41 لاکھ کروڑ روپے ادھار لے سکیں گی لیکن اضافی 2 فیصد ادھار (4.28 لاکھ کروڑ روپے) کیلئے ریاستوں کے سامنے کئی اصلاحات کی شرائط رکھی گئی ہیں۔ وزیرِ خزانہ نرملا سیتھارمن نے کہا ہے کہ اس 2 فیصد کا ایک حصہ ایک خاص، قابلِ پیمائش اور فیزیبل اصلاحات کے ساتھ منسلک ہوگا۔ریاستوں کو پورا 5 فیصد فِسکل ڈیفسٹ ریلکزیشن حاصل کرنے کیلئے اصلاحات کے چار میں سے کم از کم زمروں ( جیسے ایک ملک ایک راشن کارڈ،بجلی کی اصلاحات وغیرہ) میں دئے گئے اہداف کو پورا کرنا ہوگا۔

یکم جولائی 2017 کو گُڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) متعارف کرانے پر وزیرِ اعظم مودی نے کہا تھا ’’یہ (جی ایس ٹی) ایک نیا ہیرا ہے جسے ہم ہار میں جوڑ رہے ہیں اور جس سے بھارت کی روح مضبوط ہوجائے گی ‘‘۔ جی ایس ٹی نے ان کئی ٹیکسوں کو بدل دیا تھا کہ جو مرکز اور ریاستی سرکاروں کی جانب سے لگائی جاتی تھیں۔اس سے سال 2020 میں ریاستوں کے اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی 2014-15 کے مقابلے میں 55 فیصد سے 50.5 فیصد تک گھٹ گئی ہے۔ حالانکہ مرکز کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ خرچ کرتی ہیں،جی ایس ٹی نے ایک ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ جہاں ریاستوں کی مالیات کا انحصار مرک پر بڑھ گیا ہے۔

تحقیقوں سے پتہ چلا ہے کہ سال 2015 اورسال 2020 کے درمیان 6.84 لاکھ کروڑ روپے کا شارٹ فال تھا جو کہ چودھویں مالی کمیشن کے دکھائے ہوئے اعدادو شمار سے کہیں زیادہ بڑی رقم ہے۔ چونکہ وبأ نے مالی تخمینہ جات کو تہس نہس کردیا ہے ریاستی سرکاروں نے ریزرو بنک آف انڈیا (آر بی آئی) سے مالی اعانت پر سود کم کرنے ، مرکزی اداروں سے لئے جاچکے قرضوں کو ریشڈول کرنے اور ان پر سود معاف کرنے کا مطالبہ کیا ہے البتہ آر بی آئی یا مرکزی سرکار کی جانب سے اس بارے میں ابھی تک کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔سال 2018-19 کی پہلی سہ ماہی کیلئے مرکزی سرکار کی نیٹ آمدن 1.27 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ کیرالہ نے اپنی گرتی ہوئی آمدن کی وجہ سے ریاست کے ادھار میں اضافہ ہونے والے خدشات کے پیش نظر ہے اس نے 8.96 فیصد پر پندرہ سال پرانے بانڈ بیچ دئے ۔

مونیٹری پالیسی کو سادی بنانے، زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے اور آر بی آئی سے ریاستوں کے براہِ راست قرضہ اٹھانے کو آسان بنانے کی تجاویز کا کوئی خاص ردِ عمل دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ این کے سنگھ کمیٹی نے سنہ 2017 میں جنگ جیسی صورتحال ،قدرتی آفات یا قومی سلامتی کے خطرے کی صورت میں ایف آر بی ایم میں ’’ایسکیپ کلاز‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔ ابھی جب مرکزی سرکار خود مختار بھارت (سیلف ریلائنٹ انڈیا) کا منتر پڑھ رہی ہے،وہ ریاستوں کی مالی حالتِ زار کو کیسے بھول سکتی ہے؟

وزرائے اعلیٰ نے ریاستوں کے مالی خسارے میں نرمی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ اضافی اخراجات برداشت کرسکیں۔فِسکل ریسپانسبلیٹی اینڈ بجٹ منیجمنٹ (ایف آر بی ایم) ایکٹ کے تحت ریاستوں کی ذمہ داری مالی خسارے (فِسکل ڈیفسٹ) کو تین فیصد سے کم رکھنے کی ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ریاستیں موجودہ مالی سال کیلئے مزید رعایتوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔

مرکز کی جانب سے بڑے طمطراق سے اعلان کردہ 20 لاکھ کروڑ کے مالی پیکیج سے کسی بھی ریاست کا بھلا نہیں ہونے والا ہے۔جہاں مرکزی وزیرِ خزانہ کا ریاستوں کی ادھار لینے کی صلاحیت (بارووِنگ کیپیسٹی) 5 فیصد تک بڑھانے کا اقدام قابلِ تعریف ہے وہیں اسکے لئے رکھی گئی شرائط نا قابلِ قبول ہیں۔اس مالی سال ریاستیں ،گذشتہ 3 فیصد حد کے تحت،کُل 6.41 لاکھ کروڑ روپے ادھار لے سکیں گی لیکن اضافی 2 فیصد ادھار (4.28 لاکھ کروڑ روپے) کیلئے ریاستوں کے سامنے کئی اصلاحات کی شرائط رکھی گئی ہیں۔ وزیرِ خزانہ نرملا سیتھارمن نے کہا ہے کہ اس 2 فیصد کا ایک حصہ ایک خاص، قابلِ پیمائش اور فیزیبل اصلاحات کے ساتھ منسلک ہوگا۔ریاستوں کو پورا 5 فیصد فِسکل ڈیفسٹ ریلکزیشن حاصل کرنے کیلئے اصلاحات کے چار میں سے کم از کم زمروں ( جیسے ایک ملک ایک راشن کارڈ،بجلی کی اصلاحات وغیرہ) میں دئے گئے اہداف کو پورا کرنا ہوگا۔

یکم جولائی 2017 کو گُڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) متعارف کرانے پر وزیرِ اعظم مودی نے کہا تھا ’’یہ (جی ایس ٹی) ایک نیا ہیرا ہے جسے ہم ہار میں جوڑ رہے ہیں اور جس سے بھارت کی روح مضبوط ہوجائے گی ‘‘۔ جی ایس ٹی نے ان کئی ٹیکسوں کو بدل دیا تھا کہ جو مرکز اور ریاستی سرکاروں کی جانب سے لگائی جاتی تھیں۔اس سے سال 2020 میں ریاستوں کے اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی 2014-15 کے مقابلے میں 55 فیصد سے 50.5 فیصد تک گھٹ گئی ہے۔ حالانکہ مرکز کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ خرچ کرتی ہیں،جی ایس ٹی نے ایک ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ جہاں ریاستوں کی مالیات کا انحصار مرک پر بڑھ گیا ہے۔

تحقیقوں سے پتہ چلا ہے کہ سال 2015 اورسال 2020 کے درمیان 6.84 لاکھ کروڑ روپے کا شارٹ فال تھا جو کہ چودھویں مالی کمیشن کے دکھائے ہوئے اعدادو شمار سے کہیں زیادہ بڑی رقم ہے۔ چونکہ وبأ نے مالی تخمینہ جات کو تہس نہس کردیا ہے ریاستی سرکاروں نے ریزرو بنک آف انڈیا (آر بی آئی) سے مالی اعانت پر سود کم کرنے ، مرکزی اداروں سے لئے جاچکے قرضوں کو ریشڈول کرنے اور ان پر سود معاف کرنے کا مطالبہ کیا ہے البتہ آر بی آئی یا مرکزی سرکار کی جانب سے اس بارے میں ابھی تک کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔سال 2018-19 کی پہلی سہ ماہی کیلئے مرکزی سرکار کی نیٹ آمدن 1.27 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ کیرالہ نے اپنی گرتی ہوئی آمدن کی وجہ سے ریاست کے ادھار میں اضافہ ہونے والے خدشات کے پیش نظر ہے اس نے 8.96 فیصد پر پندرہ سال پرانے بانڈ بیچ دئے ۔

مونیٹری پالیسی کو سادی بنانے، زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے اور آر بی آئی سے ریاستوں کے براہِ راست قرضہ اٹھانے کو آسان بنانے کی تجاویز کا کوئی خاص ردِ عمل دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ این کے سنگھ کمیٹی نے سنہ 2017 میں جنگ جیسی صورتحال ،قدرتی آفات یا قومی سلامتی کے خطرے کی صورت میں ایف آر بی ایم میں ’’ایسکیپ کلاز‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔ ابھی جب مرکزی سرکار خود مختار بھارت (سیلف ریلائنٹ انڈیا) کا منتر پڑھ رہی ہے،وہ ریاستوں کی مالی حالتِ زار کو کیسے بھول سکتی ہے؟

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.