کورونا وائرس کا تاحال کوئی علاج نہیں ہے۔ نہ ہی ادویہ ساز کمپنیاں ابھی تک اس وبا کے علاج کی کوئی دوائی لیکر سامنے آئی ہیں۔ ویکسین بنانے کی کوششیں فی الوقت جاری ہیں۔ تاہم پتہ چلا ہے کہ کئی دیگر بیماریوں کے علاج و معالجے میں کام آنے والی ادویات کے استعمال سے کورونا وائرس کے متاثرین کو کافی حد تک راحت ملتی ہے۔ اس وجہ سے ان ادویات کی مانگ بھی بڑھ گئی ہے۔ کورونا متاثرین کو بہم پہنچائی جانے والی ان میں کچھ دوائیاں انٹی بائیوٹک (جراثیم کُش) ہیں، جبکہ کچھ ادویات بنیادی طور پرایچ آئی وی اور ملیریا جیسی بیماریوں کے علاج میں کام آتی ہیں۔
بھارت کی فارماسیوٹیکل صنعت، اپنے حجم کے لحاظ سے دُنیا میں تیسرے نمبر پر شمار کی جاتی ہے۔ ملک میں اس صنعت کو گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران کافی فروغ ملا ہے۔ افریقہ جیسے ترقی پذیر ملک سے لیکر انتہائی ترقی یافتہ ملک امریکہ تک، کئی ممالک بھارت سے ادویات درآمد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت دنیا میں انسداد ملیریا کی دوائی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔حالیہ ایام میں امریکہ، برازیل اور اسرائیل جیسے کئی ممالک نے بھارت سے ہائڈرو کسیلکوروکائن سپلائی کرنے کی گزارش کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے اپنے ملک میں بھی اس دوائی کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے قومی فارما کمپنیوں نے یہ دوائی بنانے کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ لیکن اس عمل کے نتیجے میں اب ایک اور مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ وہ یہ کہ اب فارما کمپنیوں کو اس دوائی میں کام آنے والے کئی اجزاء کی قلت کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے سپلائی کی مانگ کو پورے کرنے میں دشورای پیدا ہوگئی ہے۔
آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی کمپنیوں کا اسٹاک ختم ہوچکا ہے۔ انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اجزاء کی عدم دستیابی میں اس دوائی کو تیار کرنا ممکن نہیں ہے۔ مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کو خاص طور سے ہائڈرو کسیلکوروکائن کی تیاری میں کام آنے والے اجزاء کی قلت کا سامنا ہے۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ کی فارما کمپنیاں زیادہ تر انسداد ایچ آئی وی کی دوائی اور ایزیٹرو مائسن اور کلوروکین وغیرہ بناتی ہیں۔ اس وقت کلوروکین کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ مقامی فارما کمپنیاں اس وقت ہائڈرو کسیلکوروکائن اور کلوروکین کی ٹکیاں تیار کررہی ہیں، جن کی مقامی اور بین الاقوامی بازار میں بہت مانگ ہے۔ تاہم ان کی تیاری کے لئے درکار اجزاء کی قلت کی وجہ سے وہ مطلوبہ مقدار میں یہ ادویات تیار کرنے سے قاصر ہیں۔ کووِڈ19 پھیلنے سے قبل ان ادویات کی زیادہ مانگ نہیں تھی۔ یہ دوائیاں اس سے پہلے ملیریا، جوڑوں کے درد اور جلد کی بیماری کے علاج و معالجے کے لئے تیار کی جاتی تھیں۔ پہلے ہائڈرو کسیلکوروکائن کا استعمال بھی بہت کم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنیوں کے پاس ان ادویات کو وافر مقدار میں تیار کرنے کےلئے درکار اجزاء زیادہ مقدار میں میسر نہیں تھیں۔
کووِڈ19 کے پھیلاؤ کے بعد ہائڈرو کسیلکوروکائن کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دواساز کمپنیوں نے اس دوائی کی تیاری میں کام آنے والے اجزاء بڑی مقدار میں استعمال کیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تب تک مزید ادویات تیار نہیں کی جاسکتی ہیں، جب تک خام مال کا نیا اسٹاک درآمد نہیں کیا جائے گا۔ کئی بڑی دواساز کمپنیاں بشمول لپکا لیبارٹریز، زیدس، سپلا اور حیدرآباد کی کئی کمپنیاں، جن میں ہٹیرو ڈرگس، نیٹکو فارما اور لورس لیبس شامل ہیں، یہ ادوایات تیار کرتی ہیں۔ ان میں سے بعض کمپنیوں نے خام مال چین سے منگانے کے لئے آرڈر بُک کیا ہے۔ اب وہ اس مال کے یہاں پہنچنے کے انتظار میں ہیں۔
اس بیچ بعض مقامی کمپنیوں نے ادویات میں کام آنے والی یہ اجزاء از خود تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ تلنگانہ کی ڈرگ کنٹرول ایڈمنسٹریشن نے بھی موجودہ صورتحال اور درپیش چلینجز کے پیش نظر مقامی کمپنیوں سے ان اجزاء کو بنانے کےلئے کہا ہے۔ اب تک ان میں اکثر کمپنیاں بند پڑی تھیں۔ کیونکہ کلوروکین کی مانگ زیادہ نہیں تھی۔ اب مانگ بڑھنے کے ساتھ ہی اس دوائی میں کام آنے والے اجزاء بنانے کےلئے یہ کمپنیاں پھر بحال ہوگئی ہیں۔ایک مقامی دواساز کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ وہ چین سے خام مال پہنچنے کا انتظار کررہے ہیں۔ کووِڈ 19 پھیلنے کے بعد ہائڈرو کسیلکوروکائن کے ساتھ ساتھ ایزیٹرومائسن، کلوروکین، فاسفیٹ، پیراسٹامال، مونٹی لُکیسٹ، اوسلتامیور، فائیوپرراویر،لپنی وار، ریمڈیسیوراور کئی دیگر انٹی بائیوٹک اور انٹی وائرل ادویات کی مانگ بھی بازاروں میں بڑھ گئی ہے۔