ETV Bharat / bharat

شہریت ترمیمی ایکٹ : ملک بدامنی کا شکار، عالمی سطح پر بھارت کی امیج متاثر

author img

By

Published : Mar 17, 2020, 12:39 PM IST

خواتین کے حقوق کے لیے سماج کو بیدار کرنے والے سماجی کارکن ذکیہ سومن نے شہریت ترمیمی ایکٹ پر کہا کہ وزیر اعظم کو اس قانون میں ترمیم کرکے سب کے اعتماد کو حاصل کرنا چاہیے۔سب سے اہم یہ سوال ہے کہ حکومت غیر ملکیوں کو شہریت فراہم کرنے میں اتنی اتاولی کیوں ہورہی ہے۔جبکہ یہ خود اپنے شہریوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش میں ناکام رہی ہے۔حکومت کے اس رویہ کی وجہ سے ناقدین کے اس خیال کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ حکومت اس پالیسی کے ذریعے مغربی بنگال اور دوسری جگہوں پر انتخابی فوائد حاصل کرنے کی خواہشمند ہے۔

شہریت ترمیمی ایکٹ : ملک بدامنی کا شکار، عالمی سطح پر بھارت کی امیج متاثر
شہریت ترمیمی ایکٹ : ملک بدامنی کا شکار، عالمی سطح پر بھارت کی امیج متاثر

پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے پاس ہوجانے کے بعد سے ہی ملک میں بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔ طلبا کی جانب سے آئین کے حق میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔احتجاجی لہر کے دوران مسلم خواتین آئین ہند کی تمہید پڑھ کر سنارہی ہیں۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں گاندھی اور امبیڈکر کی تصاویر ہیں اور ان کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز پر جمہوریت کے حق میں نعرے درج ہیں۔ یہ سب کچھ ایک تاریخی پیغام ہے۔اس ملک گیر احتجاج اور دہلی میں ہوئے فسادات کو عالمی میڈیا نے کافی اٹھایا ہے۔

بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی اور فعال جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اس کی قدیم تہذیب سے متعلق شناخت کو زک پہنچ رہا ہے۔ جب راشٹر پتی بھون میں ڈونالڈ ٹرمپ کے اعزاز میں تقریب منعقد ہورہی تھی عین اُسی وقت شمال مشرقی دہلی فسادات کی وجہ سے جل رہی تھی۔ معتبر عالمی میڈیا اداروں نے اس صورت حال کو پورے دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔

بھارت میں اس طرح کے حالات پر اقوام متحدہ اور مختلف ممالک میں بحث و مباحثے ہورہے ہیں۔ملیشیاء، ترکی، ایران اور کنیڈا نے اس صورتحال پر کھلے عام تشویش کا اظہار کیا ہے۔کئی دوسرے ممالک نے یہ مان لیا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ بھارت کا ایک نجی معاملہ ہے، لیکن انہوں نے بھی اس معاملے میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے۔

سیول سوسائٹی کے کئی عالمی تنظیموں نے بیانات جاری کرتے ہوئے دہلی فسادات میں ہوئے تشدد کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے اور انہیں نشانہ بنانے کے حوالے سے اہم اخبارات میں شذرات لکھے جارہے ہیں۔عالمی سطح کے ایک با اثر بزنس میگزین’ دی اکو نامسٹ ‘نے دہلی فسادات کے دوران شہریوں کی حفاظت کرنے میں حکومت کی ناکامی کی کھلے عام نکتہ چینی کی ہے۔میگزین نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی حکومت ملک میں معاشی بدحالی پر روک لگانے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ اس نے سوال اٹھا یا ہے کہ ان حالات میں بھارت میں کون سرمایہ کاری کرے گا؟

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارت کی تصویر متاثر ہوگئی ہے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران وزیر اعظم کی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں ہمیں جو کامیابیاں ملی تھیں، وہ اب دائو پر لگی ہوئی ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر حکومت یہ سب کچھ کیوں نہیں دیکھ پارہی ہے؟حکومت ملک کے امن و امان اور عالمی سطح پر بھارت کی امیچ کی قیمت پر غیر ملکیوں کو شہریت کیوں دینا چاہتی ہے؟ اس قانون کے مطابق تین ہمسایہ ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ایذارسانی کا شکار لوگوں کو بھارت کی شہریت حاصل ہوگی ،بشرط یہ کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔

آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز مرتب کرنے کے نتیجے میں 19لاکھ لوگ غیر ملکی قرار پائے گئے اور انہیں اس قانون کے مطابق اب حراستی سینٹروں میں رکھنا ہوگا۔ اس صورتحال کی وجہ سے عام بھارتی شہریوں کو خوف لاحق ہوگیا ہے۔ انہیں لگ رہا ہے کہ ان کی شہریت ان سے چھینی جارہی ہے۔دوسری جانب بی جے پی کے لیڈروں کے بیانات حالات کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ بالخصو ص وزیر داخلہ کی جانب سے یہ بیان دینا کہ 'شہریت ترمیمی ایکٹ، نیشنل پاپولیشن رجسٹر اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ذریعے غیر ملکی دراندازوں کو نکال باہر کیا جائے گا ' اس بیان نے خوف میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے حوالے سے یقین دہانیاں با اثر ثابت نہیں ہورہی ہیں۔کیونکہ حکومت اور شہریوں میں اعتماد کی خلیج بڑھ گئی ہے۔ گاؤ کشی کے نام پر تشدد، ہجومی تشدد، سینئر لیڈروں کی جانب سے نفرت انگیز تقریروں اوراتر پردیش جیسی جگہوں پر پولیس کے امتیازی سلوک کے نتیجے میں لوگوں میں شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ میں مسلمانوں کو مراعات سے محروم رکھنے سے خوف اور خدشات کو مزید تقویت ملی ہے۔لوگ اب نا انصافی اور امتیازی سلوک کے خلاف اور اپنے آئینی حقوق کے مطالبے کو لیکر پر امن احتجاج کررہے ہیں۔

شہریت ترمیمی ایکٹ میں ایک دو بے ضابطگیاں ہیں۔ اس میں من مانے انداز میں ایذا رسانی کی وضاحت کی گئی ہے۔حالانکہ ایذرسانی کا شکار لوگوں کو چھت فراہم کرنا اور شہریت دینا ایک اچھا جذبہ ہے۔ کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن جب ان متاثرین کا انتخاب مذہب کے نام پر کیا جائے گا، تو یہ ایک امتیازی قانون بن جاتا ہے۔آئین مذہب کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے کئی پڑوسی ممالک مذہب کے نام پر قائم کیے گئے ہیں۔ ان ممالک میں عمومی طور پر مذہب کو سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور مذہب کو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ایک لمحے کے لئے ان ممالک میں سیاسی مخالفین اوراقلیتوں کو بھول جائیں۔خود مسلمانوں کے اندر شیعہ، احمدی اور ہزاری ایذا رسانی کا شکار ہیں۔ متاثرین کی اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کو دیکھیں۔ اس قانون کے ذریعے مذہب کی نکتہ چینی کرنے والوں کو قتل کیا جاتا ہے۔انہیں سزائے موت دی جاتی ہے۔بعض لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ایک اور مثال سیکولر کارکنوں اور بلاگروں جو سیاسی اسلام کی نکتہ چینی کرتے ہیں ان کے خلاف تشدد اور قتل کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔اسی طرح کی سوچ کے اثرات بنگلہ دیش کے سماج پردیکھنے کو ملتے ہیں ۔مگر ان متاثرین کو بھارت میں شہریت نہیں مل سکتی ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ میں ایک اور بے ضابطگی یہ ہے کہ اس کا دائرہ صرف تین مسلم ممالک تک محدود ہے۔ جبکہ حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ ایذارسانی کا شکار سری لنکا کے تاملوں کو ہونا پڑا ہے۔ایل ٹی ٹی ای اور فوج کے درمیان لڑائی میں ہزاروں بھارتی نژاد معصوم تامل مارے گئے ہیں۔

وزیر اعظم کو اس قانون میں ترمیم کرکے سب کے اعتماد کو جیتنا چاہیے۔اس قانون کا نفاذ تمام ہمسایہ ممالک میں ایذا رسانی کا شکار لوگوں پر ہونا چاہیے۔ سب سے آخر میں لیکن سب سے اہم یہ سوال ہے کہ حکومت غیر ملکیوں کو شہریت فراہم کرنے میں اتنی اتاولی کیوں ہورہی ہے۔جبکہ یہ خود اپنے شہریوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کررہی ہے۔ حکومت کے اس رویہ کی وجہ سے ناقدین کے اس خیال کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ حکومت کو اس پالیسی کے ذریعے مغربی بنگال اور دوسری جگہوں پر انتخابی فوائد حاصل ہوررہے ہیں۔

سرکار کو شہریت ترمیمی ایکٹ جیسے غیر ضروری قوانین پر ملک کی اقتصادیات اور روزگار کو ترجیح دینی چاہیے۔بھارت حال ہی میں ایک بدترین مالی بحران دیکھ چکا ہے۔پیداواری شعبہ بیٹھا ہوا ہے ۔ جبکہ ملک میں اس وقت بے روزگاری کی شرح گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ موسم کی خرابی اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کسان معاشی بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کے لئے تعلیمی اور پیشہ ورانہ شعبوں میں مزید مواقع فراہم کرنے ہونگے ۔خواتین کے تحفظ کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

ایک ایسی حکومت جو عوام کے ساتھ تعمیر و ترقی کے وعدے کے بنیاد پر اقتدار میں بیٹھی ہے، وہ محض غیر ضروری قانونی سازی میں الجھی نہیں رہ سکتی ہے۔فسادات اور سماجی ناہم آہنگی کی صورت حال میں’ میک ان انڈیا‘ کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آسکتی ہے۔ آئین نے شہریوں کو انصاف، برابری اور غیر امتیازی سلوک کے وعدے کئے ہیں۔ حکومت ان وعدوں کی پاسداری کرنے کی پابند ہے۔اس لئے حکومت کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے اپنے موقف کا سر نو جائزہ لینا ہوگا۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو عالمی سطح پر بھارت کی بین المذہبی ، کثیر التمدنی اور جمہوریت کے حوالے بھارت کی شاندار پہچان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے پاس ہوجانے کے بعد سے ہی ملک میں بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔ طلبا کی جانب سے آئین کے حق میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔احتجاجی لہر کے دوران مسلم خواتین آئین ہند کی تمہید پڑھ کر سنارہی ہیں۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں گاندھی اور امبیڈکر کی تصاویر ہیں اور ان کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز پر جمہوریت کے حق میں نعرے درج ہیں۔ یہ سب کچھ ایک تاریخی پیغام ہے۔اس ملک گیر احتجاج اور دہلی میں ہوئے فسادات کو عالمی میڈیا نے کافی اٹھایا ہے۔

بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی اور فعال جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اس کی قدیم تہذیب سے متعلق شناخت کو زک پہنچ رہا ہے۔ جب راشٹر پتی بھون میں ڈونالڈ ٹرمپ کے اعزاز میں تقریب منعقد ہورہی تھی عین اُسی وقت شمال مشرقی دہلی فسادات کی وجہ سے جل رہی تھی۔ معتبر عالمی میڈیا اداروں نے اس صورت حال کو پورے دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔

بھارت میں اس طرح کے حالات پر اقوام متحدہ اور مختلف ممالک میں بحث و مباحثے ہورہے ہیں۔ملیشیاء، ترکی، ایران اور کنیڈا نے اس صورتحال پر کھلے عام تشویش کا اظہار کیا ہے۔کئی دوسرے ممالک نے یہ مان لیا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ بھارت کا ایک نجی معاملہ ہے، لیکن انہوں نے بھی اس معاملے میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے۔

سیول سوسائٹی کے کئی عالمی تنظیموں نے بیانات جاری کرتے ہوئے دہلی فسادات میں ہوئے تشدد کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے اور انہیں نشانہ بنانے کے حوالے سے اہم اخبارات میں شذرات لکھے جارہے ہیں۔عالمی سطح کے ایک با اثر بزنس میگزین’ دی اکو نامسٹ ‘نے دہلی فسادات کے دوران شہریوں کی حفاظت کرنے میں حکومت کی ناکامی کی کھلے عام نکتہ چینی کی ہے۔میگزین نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی حکومت ملک میں معاشی بدحالی پر روک لگانے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ اس نے سوال اٹھا یا ہے کہ ان حالات میں بھارت میں کون سرمایہ کاری کرے گا؟

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارت کی تصویر متاثر ہوگئی ہے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران وزیر اعظم کی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں ہمیں جو کامیابیاں ملی تھیں، وہ اب دائو پر لگی ہوئی ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر حکومت یہ سب کچھ کیوں نہیں دیکھ پارہی ہے؟حکومت ملک کے امن و امان اور عالمی سطح پر بھارت کی امیچ کی قیمت پر غیر ملکیوں کو شہریت کیوں دینا چاہتی ہے؟ اس قانون کے مطابق تین ہمسایہ ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ایذارسانی کا شکار لوگوں کو بھارت کی شہریت حاصل ہوگی ،بشرط یہ کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔

آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز مرتب کرنے کے نتیجے میں 19لاکھ لوگ غیر ملکی قرار پائے گئے اور انہیں اس قانون کے مطابق اب حراستی سینٹروں میں رکھنا ہوگا۔ اس صورتحال کی وجہ سے عام بھارتی شہریوں کو خوف لاحق ہوگیا ہے۔ انہیں لگ رہا ہے کہ ان کی شہریت ان سے چھینی جارہی ہے۔دوسری جانب بی جے پی کے لیڈروں کے بیانات حالات کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ بالخصو ص وزیر داخلہ کی جانب سے یہ بیان دینا کہ 'شہریت ترمیمی ایکٹ، نیشنل پاپولیشن رجسٹر اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ذریعے غیر ملکی دراندازوں کو نکال باہر کیا جائے گا ' اس بیان نے خوف میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے حوالے سے یقین دہانیاں با اثر ثابت نہیں ہورہی ہیں۔کیونکہ حکومت اور شہریوں میں اعتماد کی خلیج بڑھ گئی ہے۔ گاؤ کشی کے نام پر تشدد، ہجومی تشدد، سینئر لیڈروں کی جانب سے نفرت انگیز تقریروں اوراتر پردیش جیسی جگہوں پر پولیس کے امتیازی سلوک کے نتیجے میں لوگوں میں شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ میں مسلمانوں کو مراعات سے محروم رکھنے سے خوف اور خدشات کو مزید تقویت ملی ہے۔لوگ اب نا انصافی اور امتیازی سلوک کے خلاف اور اپنے آئینی حقوق کے مطالبے کو لیکر پر امن احتجاج کررہے ہیں۔

شہریت ترمیمی ایکٹ میں ایک دو بے ضابطگیاں ہیں۔ اس میں من مانے انداز میں ایذا رسانی کی وضاحت کی گئی ہے۔حالانکہ ایذرسانی کا شکار لوگوں کو چھت فراہم کرنا اور شہریت دینا ایک اچھا جذبہ ہے۔ کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن جب ان متاثرین کا انتخاب مذہب کے نام پر کیا جائے گا، تو یہ ایک امتیازی قانون بن جاتا ہے۔آئین مذہب کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے کئی پڑوسی ممالک مذہب کے نام پر قائم کیے گئے ہیں۔ ان ممالک میں عمومی طور پر مذہب کو سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور مذہب کو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ایک لمحے کے لئے ان ممالک میں سیاسی مخالفین اوراقلیتوں کو بھول جائیں۔خود مسلمانوں کے اندر شیعہ، احمدی اور ہزاری ایذا رسانی کا شکار ہیں۔ متاثرین کی اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کو دیکھیں۔ اس قانون کے ذریعے مذہب کی نکتہ چینی کرنے والوں کو قتل کیا جاتا ہے۔انہیں سزائے موت دی جاتی ہے۔بعض لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ایک اور مثال سیکولر کارکنوں اور بلاگروں جو سیاسی اسلام کی نکتہ چینی کرتے ہیں ان کے خلاف تشدد اور قتل کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔اسی طرح کی سوچ کے اثرات بنگلہ دیش کے سماج پردیکھنے کو ملتے ہیں ۔مگر ان متاثرین کو بھارت میں شہریت نہیں مل سکتی ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ میں ایک اور بے ضابطگی یہ ہے کہ اس کا دائرہ صرف تین مسلم ممالک تک محدود ہے۔ جبکہ حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ ایذارسانی کا شکار سری لنکا کے تاملوں کو ہونا پڑا ہے۔ایل ٹی ٹی ای اور فوج کے درمیان لڑائی میں ہزاروں بھارتی نژاد معصوم تامل مارے گئے ہیں۔

وزیر اعظم کو اس قانون میں ترمیم کرکے سب کے اعتماد کو جیتنا چاہیے۔اس قانون کا نفاذ تمام ہمسایہ ممالک میں ایذا رسانی کا شکار لوگوں پر ہونا چاہیے۔ سب سے آخر میں لیکن سب سے اہم یہ سوال ہے کہ حکومت غیر ملکیوں کو شہریت فراہم کرنے میں اتنی اتاولی کیوں ہورہی ہے۔جبکہ یہ خود اپنے شہریوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کررہی ہے۔ حکومت کے اس رویہ کی وجہ سے ناقدین کے اس خیال کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ حکومت کو اس پالیسی کے ذریعے مغربی بنگال اور دوسری جگہوں پر انتخابی فوائد حاصل ہوررہے ہیں۔

سرکار کو شہریت ترمیمی ایکٹ جیسے غیر ضروری قوانین پر ملک کی اقتصادیات اور روزگار کو ترجیح دینی چاہیے۔بھارت حال ہی میں ایک بدترین مالی بحران دیکھ چکا ہے۔پیداواری شعبہ بیٹھا ہوا ہے ۔ جبکہ ملک میں اس وقت بے روزگاری کی شرح گزشتہ چار دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ موسم کی خرابی اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کسان معاشی بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کے لئے تعلیمی اور پیشہ ورانہ شعبوں میں مزید مواقع فراہم کرنے ہونگے ۔خواتین کے تحفظ کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

ایک ایسی حکومت جو عوام کے ساتھ تعمیر و ترقی کے وعدے کے بنیاد پر اقتدار میں بیٹھی ہے، وہ محض غیر ضروری قانونی سازی میں الجھی نہیں رہ سکتی ہے۔فسادات اور سماجی ناہم آہنگی کی صورت حال میں’ میک ان انڈیا‘ کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آسکتی ہے۔ آئین نے شہریوں کو انصاف، برابری اور غیر امتیازی سلوک کے وعدے کئے ہیں۔ حکومت ان وعدوں کی پاسداری کرنے کی پابند ہے۔اس لئے حکومت کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے اپنے موقف کا سر نو جائزہ لینا ہوگا۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو عالمی سطح پر بھارت کی بین المذہبی ، کثیر التمدنی اور جمہوریت کے حوالے بھارت کی شاندار پہچان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.