پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو متنازعہ بل زرعی پیداوار تجارت (فروغ اور سہولت) بل 2020 اور زرعی (با اختیار اور تحفظ) قیمت اور زرعی خدمات 2020 کے علاوہ اشیائے ضروریہ (ترمیمی) بل 2020 کی منظوری کے بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں کسان بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں۔
کسانوں اور اپوزیشن جماعتوں کی شدید تنقید نے زرعی شعبہ میں اصلاحات اور کسانوں کو اقل ترین قیمت (ایم ایس پی) کے سلسلے میں بحث کو موضوع گفتگو بنا دیا ہے۔
اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ بل زرعی اجناس کی باضابطہ بین ریاستی تجارت کو فروغ دیں گے اور کاشتکاروں کو اپنی پیداوار کے لئے بہتر قیمتوں میں مدد فراہم کریں گے، لیکن نقادوں کا الزام ہے کہ نئی قانون سازی صرف بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی مدد کرے گی اور اس سے کسانوں کی اکثریت کا استحصال کیا جائے گا۔
اسی پس منظر میں ای ٹی وی بھارت نے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ ریسرچ (آئی جی آئی ڈی آر) کے ڈائریکٹر اور وائس چانسلر پروفیسر مہندر دیو سے خصوصی گفتگو کی ہے۔ اس سے قبل وہ کمیشن برائے زرعی لاگت اور قیمتوں (سی اے سی پی) کے چیئرمین تھے۔ جو حکومت ہند کو فصلوں کے لئے اقل ترین قیمت (ایم ایس پی) کی سفارش کرتے ہیں۔
بتادیں کہ پروفیسر مہندر دیو نے امریکہ کی یلے یونیورسٹی سے معاشیات میں پوسٹ ڈاکٹورل مکمل کیا۔ اس سے قبل وہ دہلی اسکول آف ایکونامک سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا۔
- پروفیسر مہندر دیو سے گفتگو کے اہم نکات:
- ان بلوں کی منظوری کے بعد کسان اور بڑی کمپنیوں کے درمیان معاہدے کے دوران چھوٹے کاشتکاروں کے لئے کس طرح فائدہ ہوگا؟
اس طرح کے معاہدے بڑی کمپنیوں کی مدد کریں گے۔ چونکہ ان میں زیادہ مول تول کرنے کی طاقت ہے۔ وہ کسانوں کو ان کی قیمت دے سکتے ہیں۔ لہذا زرعی معاہدہ اور یہ دونوں بل کسانوں کے بھی حق میں ہے۔
کسانوں کی پیداوار سے مطابق تنظیمیں (ایف پی او) بڑی کمپنیوں کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرسکتی ہیں اور آپس میں تعاون بھی کرسکتی ہیں۔
اگر مارکیٹ کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی تو کمپنیاں معاہدے نہیں کرسکتی۔ اسی طرح اگر قیمتوں میں کوئی اضافہ ہوتا ہے تو کسان معاہدے برقرار نہیں رکھ سکتے۔
بل کے مطابق اگر کسانوں اور کمپنیوں کے مابین کوئی تنازعہ ہے تو ضلعی کلکٹرز کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس سلسلے میں ان درمیان تعلقات برقرار رہے۔
- کیا کسانوں کے استحصال کو روکنے کے لئے ایک ضابطہ ہونا چاہئے؟
موجودہ صورتحال میں اے پی ایم سی مارکیٹز اور درمیانی افراد کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر غیر اے پی ایم سی علاقوں میں ان کا خاتمہ مشکل ہے۔ اسی لیے ان بلوں کے نفاذ کے بعد کسان اپنی پیداورا کو براہ راست فروخت کرسکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کسانوں کے استحصال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
- کیا کسانوں اور خریداروں کے مابین براہ راست تجارت کرنے اور درمیانی افراد کو ختم کرنے کا کوئی امکان ہے؟
بڑی کمپنیاں بہت سارے چھوٹے کسانوں اور معمولی کسانوں کو جمع نہیں کرسکتی ہیں۔ نیز وہ ایک ایسے نظام پر عمل کرتے ہیں جس کو باہم منسلک منڈی کہا جاتا ہے۔ جس میں مڈل مین فصلوں کی کاشت سے قبل کاشتکاروں کو کریڈٹ دیتے ہیں تاکہ کسان صرف درمیانی افراد کو فروخت کرسکیں۔ یہ باتیں اب بھی جاری رہ سکتی ہیں۔ ان بلوں کے بعد کسانوں اور خریداروں کے مابین براہ راست تجارت ممکن ہے۔
- بہت ساری کاشتکار تنظیمیں اشیائے ضروریہ (ترمیمی) قانون 2020 میں کی جانے والی ترامیم کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ملک میں غذائی افراط زر کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی ہوگی۔ اس پر آپ کا کیا خیال ہے؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اشیائے ضروریہ (ترمیمی) قانون کالعدم ہونا چاہئے۔ یہ قدم درست سمت میں ہے لیکن اشیائے خورد و نوش اور دالوں کے ذخیرہ اندوزی کو روکنے اور صارفین و کاشتکاروں کو استحصال سے بچانے کے لئے کچھ ضوابط وضع کیے جانے چاہئیں۔
- کسانوں اور حزب اختلاف کی بنیادی تشویش کیا ہے؟ کیا حکومت مستقبل میں سرکاری خریداری اور ایم ایس پی اسکیم کو روک دے گی؟
حکومت کا کہنا ہے کہ ہم اقل ترین قیمت (ایم ایس پی) نہیں ہٹائیں گے لیکن کسانوں کو خوف ہے کہ ایم ایس پی آہستہ آہستہ ہٹا دیا جاسکتا ہے۔
صرف دس فیصد کسان ایم ایس پی سسٹم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پنجاب، ہریانہ، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور تمل ناڈو چند ریاستیں ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ ہمیں دوسرے کاشتکاروں کی آمدنی میں بہتری لانا ہوگی۔
- کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے لئے کون سی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
ان بلوں سے کسانوں کی آمدنی دوگنی نہیں ہوگی۔ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے لئے فصلوں کی تنوع اور پیداورا میں اضافہ اہم ہے۔
فی الحال چاول اور گندم کو بیشتر سرکاری خریداری اور سبسڈی دی جاتی ہے۔ ان فصلوں کے لئے ایم ایس پیز کو ہٹایا جائے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ ایم ایس پیز دے کر کولڈ اسٹوریج کی سہولیات کی تعمیر اور فوڈ پروسیسنگ یونٹ قائم کرکے دیگر فصلوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ جس سے نجی سرمایہ کاری ہوگی۔
- مزید پڑھیں: 'کاروباری منڈیوں کی مستقبل کے لیے فکر مند'
زراعت سے ہٹ کر دیگر صنعتوں اور خدمات کے شعبوں میں کسانوں کو منتقل کیا جانا چاہئے، لیکن اس کے لئے یہ مناسب وقت نہیں ہے۔