بی ایچ یو کے شعبہ سنسکرت میں ڈاکٹر فیروز خان کی تقرری کے خلاف طلبا مظاہرہ کے بعد اب جگہ جگہ پوسٹر چسپا کر کے احتجاج کررہے ہیں۔
طلبا کا کہنا ہے کہ مذہب کے شعبے کا مطلب مندر اور مندر میں غیر ہندو کا داخلہ کیسے؟ یہی بات انھوں نے اپنے پوسٹروں میں بھی واضح طور پر تحریر کی ہے۔
دوسرے پوسٹر میں لکھا گیا ہے 'سنسکرت ودیا دھرم شعبے میں غیر ہندوؤں کا داخلہ ممنوع'۔
ایک پوسٹر میں لکھا ہے 'سنسکرت زبان سے بیر نہیں فیروز خان، لیکن مذہب سے سمجھوتا بھی نہیں'۔
پوسٹر چسپا کرنے والے ایک طالب علم ابھی نائک مشرا نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں بتایا کہ 'پانچ نومبر کو مہامنا کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر فیروز خان کی تقرری یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی، جب کہ یادگاری پتھر پر واضح طور پر لکھا ہے کہ سنسکرت ودیا دھرم شعبے میں غیر ہندوؤں کا داخلہ ممنوع ہے۔ آج ہم یہ پوسٹر لگا کر پھر سے احتجاج درج کرا رہے ہیں، تاکہ یہ بات فیروز خان تک پہنچے کہ غیر آریوں کا داخلہ ممنوع ہے'۔
غور طلب ہے کہ یونیورسٹی نے اپنی طرف سے واضح طور پر ایک پریس ریلیز جاری کرکے بتا دیا تھا کہ سب سے اہل امیدوار کی تقرری پوری ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ ہوئی ہے۔
اس واقعہ کے بعد پورے ملک میں ایک بحث چھڑ گئی تھی، جس کے بعد متعدد دانشوران قوم فیروز خان کی حمایت میں اتر آئے اور طلبا کے اس اقدام کو غلط ٹھہرایا۔
اترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے فیروز خان کی حمایت کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ اس پر جلد از جلد مناسب قدم اٹھایا جائے۔
وہیں بی ایچ یو کے بانی مدن موہن مالویہ کے پوتے اور بی ایچ یو چانسلر چیف جسٹس گریدھر مالویہ نے بھی طلبا کی اس حرکت کو غلط ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اگر آج مالویہ جی زندہ ہوتے تو وہ خود اس تقرری کی حمایت کرتے۔
ان سب کے باوجود طلبا نے 7 نومبر سے 22 نومبر تک احتجاج کیا۔ اور یہ کہہ کر ختم کیا تھا کہ اگر اس تقرری کو واپس نہیں لیا گیا تو امتحان کا بائیکایٹ کریں گے۔
جب طلبا کو محسوس ہوا کہ ان کی باتوں پریونیورسٹی انتظامیہ کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے تو ایک نیا طریقہ اپناتے ہوئے یونیورسٹی کیمپس میں جگہ جگہ تقرری کی مخالفت میں پوسٹر لگائے جارہے ہیں۔