مسٹر جندل نے عالمی آبادی دن کے موقع پر طبی سہولیات میں نسبتاًزیادہ سرمایہ کاری اور بیٹیوں کو تعلیم یافتہ بنانے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ پلس پولیو مہم کی طرز پر آبادی کنٹرول بیداری مہم چلائی جائے تو ملک کو کووڈ 19اور دیگر جان لیوا بیماریوں سے نجات ملنے کے ساتھ ہی بھکمری اور غذائی قلت سے نجات ملے گی۔
اس کے لئے انہوں نے کمیونٹی قیادت اور ٹیکس چھوٹ جیسے حوصلہ افزا پیکج دینے کا مشورہ دیا ہے۔انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ قومی سطح پر اسکولی نصاب میں فیملی پلاننگ سے متعلق حقائق کو ترجیح دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ ریاستی حکومتوں سے لیکر پنچایت سطح تک ایسی مہم چلائی جائے جس سے ہر گھر تک دو بچے۔ سب سے اچھے کا پیغام پہنچ جائے۔
مرکزی حکومت اس کام میں اچھی کارکردگی کرنے والی ریاستوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی پالیسی بھی بنائے اور انہیں فنڈز مختص کرنے میں مناسب تعاون دے۔مسٹر جندل نے کہا کہ جس طرح پلس پولیو کنٹرول میں مذہبی علما اور کمیونٹی رہنماوں کی حصہ داری سے وطن کو پلس پولیو سے پاک کیا گیا اسی طرز پر آبادی کنٹرول کے لئے بھی مہم چلائی جائے تاکہ وطن کے قدرتی وسائل کا مکمل استعمال کرکے اہل وطن کو خوشحال بنانے کی راہ ہموار ہو۔
انہوں نے 2018کے گلوبل ہنگر انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت 119 ممالک میں 103 ویں نمبر تھا۔ 137کروڑ کی آبادی والے ہمارا ملک 2027تک دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک بن جائے گا جو ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ بڑھتی آبادی سے معاشرتی عدم مساوات میں اضافہ ہوا۔ امیر غریب کی کھائی مزید چوڑی ہوجائے گی اس لئے آبادی کو کنٹرول کرنے قومی مفادمیں ضروری ہے جس کے لئے لوگوں کو سمجھانا ضروری ہے۔
اس کی ذمہ داری تعلیم یافتہ خواتین کو ترجیحی بنیاد پر دی جائے اور فیملی پلاننگ کے اقدامات کو یونیورسل کرایا جائے۔انہوں نے کہا کہ جن جن ریاستوں نے بچیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی وہاں وہاں پیدائش کی شرح کمی نظر آئی ہے۔ 1991-2001کی دہائی میں بچیوں کی تعلیم میں توسیع کی وجہ سے پیدائش کی شرح 21.5سے کم ہوکر 17.7فیصد ہوگئی۔
کیرالہ، تملناڈو، پنجاب، مہاراشٹر، ہماچل پردیش میں بچیوں کی تعلیم کا نظام بہتر ہونے کی وجہ سے پیدائش کی شرح کم ہوئی ہے جبکہ اترپردیش اور بہار میں ہدف حاصل نہیں ہوپارہا ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔4کے مطابق پیدائش کی شرح 1.8فیصد رہے تو حالات قابو میں آسکتے ہیں۔
حالانکہ کچھ ماہرین مانتے ہیں کہ 2.1فیصد کی شرح سے بھی آبادی میں استحکام حاصل کیا جاتا ہے۔ ابھی ملک میں پیدائش کی شرح2.2فیصد ہونے کا اندازہ ہے۔سابق رکن پارلیمان نے کہاکہ ان کی پارلیمانی مدت میں آبادی کنٹرول کرنے کے اقدامات پر کئی مرتبہ بات چیت ہوئی جن میں انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا۔
تمام قانون ساز پارٹی کی سیاست سے بالاتر ہوکر اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ تھے۔ دس ریاستوں میں کچھ اقدامات بھی کئے گئے دو سے زیادہ بچوں والے لوگوں کو پنچایت انتخابات کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔