سینٹرل ٹریڈ یونینوں آئی این ٹی یو سی، اے آئی ٹی یوسی، ایچ ایم ایس، سی آئی ٹی یو، اے آئی یو ٹی یوسی، ٹی یو سی سی، ایس ای وی اے، اے آئی سی سی ٹی یو، ایل پی ایف اور یو ٹی یوسی نے اہم مطالبات جیسے ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی، بے روزگار نوجوانوں کے لیے مزید روزگار کے مواقع، ملازمت کی طمانیت، حق اجرت، ملازمت کی طمانیت کو یقینی بنانے، آؤٹ سورسنگ کے خاتمہ کے ذریعہ مستقل ملازمتوں کی فراہمی، مزدور قوانین میں ترمیم نہ کرنے، ٹریڈ یونین کے حقوق کو ختم نہ کرنے، سماجی سلامتی کی اسکیمات کا خاتمہ نہ کرنے، اقل ترین اجرت 21 ہزار روپیے کرنے، تمام کے لیے وظیفہ و بونس، نئے وظیفہ کی اسکیم کو منسوخ کرنے، عوامی شعبہ کی نجی کاری نہ کرنے، بینکس کو ضم نہ کرنے، ڈپازٹز پر سود کی شرح میں اضافہ اور بینکس کو وصول شدنی قرضہ جات کی واپسی پر اس ہڑتال کی اپیل کی تھی۔
مواضعات سے لے کر شہروں تک کے منظم اور غیر منظم شعبہ کے تقریبا 25کروڑ ورکرز نے اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ بینکنگ شعبہ میں پانچ یونینوں اے آئی بی ای اے، اے آئی بی او اے، بی ای ایف آئی، آئی این بی ای ایف اور آئی این بی او سی کی جانب سے مشترکہ طور پر اس ہڑتال کی اپیل کی گئی تھی۔
دفاعی پیداوار، اسٹیل، آئیل کول، ریلویز، بندرگاہوں، روڈ ٹرانسپورٹ، اساتذہ، سرکاری اساتذہ وغیرہ اس ہڑتال میں شامل ہوئے۔
آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری و سی پی آئی کے قومی کونسل کے رکن سی ایچ وینکٹ چلم نے یہ بات کہی۔
انہوں نے کہاکہ ملک بھر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مہاراشٹر، اے پی، تلنگانہ مغربی بنگال، یوپی، ایم پی، دہلی، پنجاب،گجرات، کرناٹک، کیرل اوربہار جیسی بڑی ریاستوں میں بینکنگ خدمات متاثر ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ نقدی، اے ٹی ایمز سے نہیں نکالی جاسکی۔ اے ٹی ایمز نے کام نہیں کیا اور چیکز،کلیرنس کے لیے نہیں بھیجے جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس ہڑتال کے سبب تقریبا 21,500کروڑ روپیے کے چیکس کلیر نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین نے جوش و خروش کے ساتھ اس ہڑتال میں حصہ لیا اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی بی ای اے کے ساتھ ساتھ بینکنگ شعبہ کی تنظیموں آل انڈیا انشورنس ایمپلائز ایسوی ایس، جنرل انشورنس ایمپلائز آل انڈیا ایسوسی ایشن، آل انڈیا ریزرو بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن، آل انڈیا ریزرو بینک فیڈریشن، آل انڈیا بینک آفیسرس ایسوی ایشن، بینک ایمپلائز فیڈریشن آف انڈیا، آل انڈیا ایل آئی سی ایمپلائز فیڈریشن، آل انڈیا بینک ایمپلائز فیڈریشن، انڈین نینشل بینک آفیسرس کانگریس، بینک کرمچاری مہاسبھا، آل انڈیا کواپریٹیو بینک ایمپلائز فیڈریشن، نیشنل فیڈریشن آف آر آر بی ایمپلائز، آل انڈیا گرامین بینک ایمپلایز ایسوسی ایشن، آل انڈیا گرامین بینک ایمپلائز کانگریس، نیشنل کنفڈریشن آف آر آربی ایمپلائز، نیشنل فیڈریشن آف آر آر بی آفیسرز، آل انڈیا گرامین آفیسرس ایسوسی ایشن، آل انڈیا گرامین بینک آفیسرز کانگریس نے بھی اس ہڑتال میں حصہ لیا۔
وینکٹ چلم نے کہا کہ عوام کی جانب سے جمع کی گئی رقومات کے تحفظ کے لیے عوامی شعبہ کے بینکز کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ حال ہی میں حکومت نے دس بینکز کو چار بینکز میں ضم کردیا۔
آندھرابینک، کارپوریشن بینک، اورینٹل بینک آف کامرس، سنڈیکیٹ بینک، الہ آباد بینک، یونائیٹیڈ بینک آف انڈیا بند ہونے کاسامنا کررہے ہیں۔
یہ غلط قدم ہے اور اس سے صارفین کی خدمات، ملازمتیں متاثر ہوں گی اور اس کے ذریعہ بینکز کے قرضہ جات کی واپسی نہیں ہو پائے گی۔