تاہم عرضی گزاری کے عمل کے دوران رابطہ اور اتفاق کے فقدان کے ساتھ ساتھ بہت حد تک مسابقت بھی نظر آرہی ہے۔
بابری ایودھیا ملکیت معاملہ میں عدالت عظمی کے فیصلہ آنے کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند نے الگ الگ تاریخوں میں عرضی داخل کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کی شروعات جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے آج عرضی داخل کرنے سے ہوگئی جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے آئندہ جمعہ تک عرضی داخل کرنے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔
حالانکہ بابری ایودھیا ملکیت معاملہ میں مسلم فریق کے طور پر تقریبا 7 عرضی گزار رہے ہیں، جن میں سنی وقف بورڈ نے مکمل طور پر اور محمد ہاشم انصاری نے عارضی طور نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے سے اپنے آپ کو دور رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
باقی عرضی گزاروں میں کچھ کو بورڈ کی حمایت حاصل ہے، جبکہ ایک عرضی گزار جمعیۃ کے مولانا ارشد مدنی ہیں، جو جمعیۃ علماء اترپردیش کے سیکریٹری محمد طیب کے انتقال کے بعد عرضی گزار بنے ہیں۔
مقدمہ ملکیت کا تھا، جس پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کا قانونی حق مسلم فریق کو میسر ہے، اسے ہی استعمال کرتے ہوئے جمعیت نے عرضی داخل کی ہے۔
دوسری طرف بابری جیسے حساس مسئلہ پر قانونی لڑائی لڑ رہے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند، دونوں مسلمان کی معتمد اور اہم جماعتیں تسلیم کی جاتی ہیں، مگر دونوں تنظیموں کے ایکشن اور پیش رفت میں اتفاق نہ ہونے کے احساسات بھی سامنے آرہے ہیں۔
ان جماعتوں میں اختلاف کی تصدیق خود مولانا سید ارشد مدنی کے آج کے بیان سے بھی لگایا جسکتا ہے، جہاں انہوںے اپنے آپ کو اولین عرضی گزار بتایا ہے۔
پیر کے روز پریس کانفرنس کے دوران جب مولانا مدنی سے یہ سوال پوچھا گیا کہ جمعیۃ علماء ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ الگ الگ تاریخوں میں عرضی کیوں داخل کر رہے ہیں اور کیا ان کے درمیان کوئی اختلاف ہے؟ اس کے جواب میں مولانا نے کہا کہ' جمعیۃ نے سب سے پہلے عرضی داخل کی تھی اور جمعیۃ ہی اصل فریق ہے۔ مولانا مدنی نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ اختلاف کو خارج کیا مگر ان کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ ان کی جماعت اور بورڈ کے درمیان تعاون کا فقدان ہے۔
دوسری طرف مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ بورڈ ہی اس مقدمہ کی پیروی کرے گا اور جمعیۃ اس کے ساتھ معاونت کرے گی۔ بورڈ کے تاسیسی رکن کمال فاروقی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ' دونوں کلیدی جماعتوں میں کو آرڈنیشن کیوں نہیں؟ کمال فاروقی نے کہا کہ جمعیۃ بورڈ کے ساتھ ہے اور بورڈ نے ہی جمعیۃ کے لیے نظر ثانی کا ڈرافٹ بنوایا ہے۔
دونوں مسلم جماعتوں کے ذمہ داروں کے بیانات صاف بتلارہے ہیں کہ عرضی داخل کرنے کے معاملہ میں نہ صرف ان میں مسابقت ہے بلکہ اختلافات بھی پوری طرح عیاں ہیں۔