برطانوی فلاحی تنطیم 'سیو دا چلڈرین'،جو بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے، اس نے خبر دار کیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث تعلیمی نظام کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔اس کی وجہ سے 1.6 بلین بچے دوبارہ اسکول نہیں جا پائیں گے۔
تنظیم کے مطابق کووڈ 19 نے دنیا بھر کے 1.6 بلین طلبا کی تعلیم کو متاثر کیا ہے، یہ تعداد دنیا بھر میں طلبا کی مجموعی تعداد کا 91فیصد ہے۔
ان کی رپورٹ کے مطابق طلبا کی ایک بڑی تعداد کووڈ 19 کے باعث باضابطہ تعلیمی نظام سے باہر ہوجائیں گی اور یہ دوبارہ اپنی اسکول کی جانب رخ نہیں کرسکیں گے۔
ای ٹی وی بھارت کے سینئر صحافی کرشن آنند ترپاٹھی نے بھارت میں تعلیمی نظام کے حوالے سے بھارت کے سیو دا چلڈرین کے ڈپٹی ڈائریکٹر کمل گور سے بات چیت کی۔ پیش ہیں انٹرویو کے اقتباسات:
سوال: کووڈ 19 کی وجہ سے دنیا اور بھارت کے تعلیمی نظام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب: یونیسکو نے کہا ہے کہ پرائمری سے لے کر تیسری جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے 332 ملین طلبا متاثر ہوں گے یا کووڈ 19 کے باعث ان کی تعلیم درہم برہم بھی ہو سکتی ہے۔ شائد وہ آن لائن میڈیم کے ذریعہ تعلیم حاصل کر رہے ہوں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اس میڈیم کے ذریعہ حقیقی طور پر کتنا سیکھ پارہے ہیں۔
ایسے حالات میں جب بچے پہلے ہی صحیح طور سے سیکھ نہیں رہے ہیں اور اب اس وجہ سے ان کی تعلیم میں روکاوٹ پیدا ہوگئی ہے، یہ پوری دنیا میں ہورہا ہے لیکن بھارت کے 322 ملین بچوں کی تعلیم میں روکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ آپ اس کے اثرات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان بچوں پر اس کے اثرات کا اندازہ لگائیں جنہوں نے ابھی تک اسکول میں قدم ہی نہیں رکھا ہے۔
ان مہاجر مزدوروں کے بچوں پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگائیں جو اس وبائی مرض کے باعث اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر گئے ہیں۔
سوال: اس مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ 20 فیصد طلبا اسکول چھوڑ دیں گے؟ کیا یہ شرح پورے بھارت میں لاگو ہوتی ہے یا پوری دنیا میں؟
جواب: ایسی ہنگامی صورتحال کے بعد اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی یہ اوسط شرح ہے کہ وہ اسکول چھوڑ دیں گے۔ ابھی تک اس کا کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی تحقیق کی گئی ہے کہ حقیقی طور پر یہ کتنے بچوں کو متاثر کرے گا کیونکہ ہم نے ابھی تک اپنے اسکول اور آنگن واڑی مراکز نہیں کھولیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم ہے کہ سڑک میں رہنے والے بچے آخر کہاں گئے ہیں۔ اچانک سے سب غائب ہوگئے ہیں۔ ہمیں ان کی تعلیم کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔
سوال: شہری علاقوں میں رہائش پذیر متوسط طبقے کے بچوں کی ایک بڑی تعداد آن لائن تعلیم حاصل کر رہی ہے کیا یہ نظام کام کر رہا ہے؟
جواب: بچوں نے کبھی ایسے تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ وہ اس چیز کے عادی نہیں ہیں۔ وہ اس نئے طریقے کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ویسے یہ الگ مسئلہ ہے۔ وہیں ایسے کئی اساتذہ ہیں جو آن لائن پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس ماحول میں بچوں پر کافی دباؤ پڑ رہا ہے۔ ہم زیادہ تر بچوں کو کھلی جگہ، کھیلنے اور سیکھنے کے طریقوں سے جوڑتے تھے لیکن اب وہ اپنے دوستوں اور اساتذہ کے بغیر اپنے چھوٹے سے کمرے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں تب یہ بالکل بھی فائدہ مند نہیں ہے۔ وہ سوال نہیں پوچھ سکتے ہیں اور یہ دو طرف تعلیم کا حصہ نہیں ہے۔
سوال: آپ کا اندازہ کیا ہے؟ کیا یہ چار مہینے ضائع ہوچکے ہیں؟
جواب: یہ کہنا مشکل ہوگا کہ کچھ بھی سکھایا نہیں گیا ہے کیونکہ اس کی کوئی تشخیض نہیں ہے لیکن یقینی طور پر سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔
سوال: آن لائن تعلیم ڈیجیٹل ڈیوائڈ کو اجاگر کر رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے کیا صورتحال ہے؟
جواب: ہمیں تعلیم فراہم کرنے کے متبادل طریقہ کار، قیمت اور کم لاگت کی بنیاد کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیو دا چلڈرین انڈیا بچوں کو سکھانے کے لیے موبائل لائبریری اور کمیونٹی ریڈیو کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ ہمارے پاس والدین کے لیے چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں کا منصوبہ موجود ہے جس کی مدد سے وہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دے سکتے ہیں لہذا صرف سیکھنا ایک پہلو ہے اس وقت بچوں کی زندگی میں دوسرے پہلو پوشیدہ ہیں۔ سیکھنے کے عمل کو متواتر طور پر جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
سوال: مڈ ڈے میل پروگراموں کی کیا صورتحال ہے؟
جواب: اگر آپ آنگن واڑی کارکنوں کی بات کریں تو وہ گھر گھر جاکر بچوں کو کھانا تقسیم کر رہے ہیں۔ ہم نے جہاں بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے ہم نے یہی دیکھا ہے۔ وہ پوری کوشش کر رہے ہیں، ہاں لیکن یہ کھانا پکا ہوا نہیں ہوتا ہے۔
سوال: کووڈ 19 بحران کے دوران امتحانات منعقد کروانے کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: ہم اسکولوں اور امتحانی مراکز میں بچوں کی بحفاظت گھر واپسی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اگر ہم حفاظت اور حفظان صحت فراہم کر سکتے ہیں تو ہمیں اس کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ سماجی دوری کے معیارات کیسے پورے ہوں گے۔ یہ آسان نہیں ہے۔ یہ بہت مشکل ہے۔
یہ پریشانی صرف امتحان تک محدود نہیں ہے، یہ بات ہے اس ذہنی تناؤ کی جس سے بچے گزر رہے ہیں، یہاں تک کہ اساتذہ بھی اسی مشکلات سے دوچار ہیں۔ میرے خیال میں جب تک ان مراکز میں بچوں کے لئے حالات محفوظ نہیں ہوجاتے ہیں تب تک ہمیں اس سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔
سوال: ہمیں اسکول کھولنا چاہیے یا نہیں؟
جواب: سیو دا چلڈرین بچوں کی حفاظت اور اسکول سے بچوں کی واپسی کی حفاظت جیسے منصوبے کو فروغ کرنے کی بات کر رہی ہے، اس لیے جب تک حالات بہتر نہیں ہوجاتے ہیں یا کوئی مستقل انتظام نہیں کیا جاتا تب تک بچوں کو تعلیمی ادارہ نہیں بھیجنا چاہیے۔ ہمارے اسکولوں کو آئیسولیشن سینٹر کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس لیے ہمیں انہیں سینیٹائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکول کو کھولنے سے پہلے بہت ساری تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: کووڈ 19 کے بعد تعلیمی شعبہ کو بحال کرنے کے لیے کتنی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہوگی؟
جواب: یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مالی اعانت میں 12 فیصد کی کمی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ پہلے ہی ہم ابتر صورتحال میں مبتلا ہیں اور کووڈ 19 کی وجہ سے اس صورتحال میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ صحت اور معاش میں سرمایہ کاری کی نہایت ضروری ہے لیکن اس تعلیم کے بحران سے بچنے کے لئے تعلیم میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔