جسٹس ادے امیش للت، جسٹس ایم ایم شانتن گودر اور جسٹس ونییت سرن پر مشتمل ڈویژن بنچ نے مسٹر ونود دوا کو پولس کے ضمنی سوالنامےکا جواب دینے سے منع کیا۔ عدالت عظمی میں مسٹر ونود دوا کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل وکاس سنگھ نے دلیل دی کہ ہماچل پولس تفتیش کے نام پر انہیں ہراساں کررہی ہے۔
ایڈوکیٹ وکاس سنگھ نے بتایا کہ پولس نے مسٹر دوا کو ایک سوالنامہ بھیجا تھا جس کا انہوں نے جواب دےدیا ہے، لیکن اب پولس انہیں ہراساں کرنے پر اتر آئی ہے اور ایک کے بعد ایک سوالنامے بھیج رہی ہے۔ اس پر جسٹس للت نے کہا کہ مسٹر دوا کو اب کسی سوالنامے کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے بعد بنچ نے پولس کو حکم دیا کہ وہ اب تک کی تفتیش کی رپورٹ مہر بند لفافے میں کورٹ کی رجسٹری کو پیش کرے۔
تاہم سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی طرف سے پیش ہوکر اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملے کی جانچ کو روکنے کے مترادف ہوگا۔ اس پر جسٹس للت نے کہا کہ انہوں نے یہ حکم صرف سوالنامے کے سلسلے میں دیا ہے۔جسٹس للت نے کہا کہ "تحقیقات کے دوران آپ بار بار سوالنامے بھیجنے کے سوا ہر چیز جاری رکھ سکتے ہیں۔ آپ مزید سوالنامے کا گولہ نہ داغیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے ہماچل پردیش پولس کے سوالات پر بھی سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسٹر ونود دوا کے خلاف درج ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات میں میرٹ نہیں پائی گئی تو وہ ایف آئی آر کو ختم کردے گي۔ قابل ذکر ہے کہ 14 جون کو عدالت عظمی نے اگلے احکامات تک مسٹر ونود دوا کی گرفتاری پر روک لگا دی تھی، لیکن ہماچل پردیش پولس کو تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔
سینئرصحافی مسٹر ونود دوا نے شملہ میں بی جے پی کے لیڈر اجے شیام کے ذریعہ درج کرائی گئي ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کے لئے عدالت عظمی سے رجوع کیا تھا، جس کے بعد آج ایک خصوصی سماعت کے لئے ایک بنچ تشکیل دی گئی تھی۔بی جے پی لیڈر نے مسٹر دوا پر ایسی خبر پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے جس سے فرقہ وارانہ فسادات پھیلنے کا امکان ہے اور اسی الزام میں ان کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کرایا ہے۔