اسوقت جب ساؤتھ ایشن ایسوسی ایشن آف ریجنل کاپوریشن (سارک) گہرے انجماد میں ہے،کیا کورونا وائرس کی وبا اس علاقائی گروپ کو متحرک ہونے کا موقعہ فراہم کرسکتی ہے؟ سنہ 2016 میں سارک کی اجلاس کی میزبانی پاکستان کو کرنی تھی اور اسے اسلام آباد میں منعقد ہونا تھا لیکن اوڑی کے دہشت گردانہ حملے کی وجہ سے بھارت کی ایماء پر اسکا بائیکاٹ ہوا۔تب سے ہی سری لنکا، نیپال اور مالدیپ جیسے ممالک اعلیٰ سطحی سیاسی مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں تاہم بھارت کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ماحول سازگار نہیں ہے اور پاکستان کو اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پر ضرب لگانا چاہیے۔
لیکن بھارت ابھی کووِڈ19کی وبا سے نمٹنے کیلئے فیصلہ کن اقدامات اٹھا رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی اجتماعی علاقائی حکمت عملی کے لیے سارک پر دوبارہ توجہ مرکوز کررہے ہیں تاکہ عالمی سطح پر صحت عامہ سے متعلق چیلنجز سے مقابلہ کیا جاسکے۔ ایک ٹویٹ میں وزیرِ اعظم مودی نے کہا میں یہ تجویز کرنا چاہوں گا کہ 'سارک کی قیادت کرنے والے ممالک کورونا وائرس کے مقابلے کیلئے ایک سخت حکمتِ عملی مرتب کرے۔ہم اپنے شہریوں کو صحتمند رکھنے پر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ مباحثہ کرسکتے ہیں۔ہم ایک ساتھ ملکر دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کرسکتے ہیں اور ایک صحت مند دنیا کے لیے تعاون دے سکتے ہیں۔
حالانکہ وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے مطابق ابھی تک ویڈیو کانفرنسنگ کے انعقاد کیلئے مزید کوئی اقدامات تو نہیں کئے گئے ہیں، جیسا کہ وزیرِ اعظم نے ٹویٹ کرکے تجویز دی ہے، تاہم اس تجویز کا علاقائی لیڈروں نے خیرمقدم کیا ہے۔مالدیپ کے صدر ابراہیم صالح نے ٹوئیٹ کرکے ردِ عمل ظاہر کی اور لکھا کہ اس اہم مسئلے کو لیکر پہل کرنے کیلئے شکریہ نریندر مودی ۔کووِڈ19کو شکست دینے کیلئے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔مالدیپ اس تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے اور پوری طرح سے اس علاقائی کوشش کی حمایت کرے گا۔
سری لنکا کے صدر گوٹابیا راجاپکسا نے بھی اسی طرح کے مثبت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا 'اس عظیم پہل کیلئے آپ کا شکریہ نریندر مودی۔سری لنکا مباحثے میں شریک ہونے کیلئے تیار ہے اور اپنے تجربات و بہترین عمل کا تبادلہ کرنے اور دیگر سارک ممبران سے سیکھنے پر آمادہ ہے۔آئیے آزمائش کے اس وقت پر ہم یکجہتی کیلئے متحد ہوجائیں اور اپنے شہریوں کو محفوظ رکھیں۔
اتفاق ہے کہ سری لنکا کے ایک بیوروکریٹ اس سال سارک کے سکریٹری جنرل کی ذمہ داری لینے والے ہیں لیکن بھارت نے کولمبو کے ساتھ حالیہ سرکاری مذاکرات میں سارک کی بحالی کے حوالے سے کسی قسم کے جوش و خروش کا اظہار نہیں کیا ہے۔وزیرِ اعظم مودی جنہوں نے نومبر2014میں کٹھمنڈو کے سارک اجلاس کے دوران ذیلی علاقائیت کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔بے آف بنگال انیشیٹیو فار ملٹی سیکٹورل ٹیکنکل اینڈ اکانومک کاپوریشن(بی آئی ایم ایس ٹی ای سی)کے متبادل علاقائی محاذ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔بی آئی ایم ایس ٹی ای سی میں تھائی لینڈ اور سارک ممبران جس میں بنگلہ دیش، بھارت، میانمار، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان،کے سات ممالک ہیں تاہم اس میں پاکستان اور افغانستان شامل نہیں ہیں۔
جہاں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی طرف سے وزیرِ اعظم مودی کی تجویز پر ردِ عمل آنا ابھی باقی ہے، وہیں نیپال اور بھوٹان نے بھی اسکا خیرمقدم کیا ہے۔نیپال کے وزیرِ اعظم کے پی شرما اولی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مئیں سارک ممالک کی قیادت کی جانب سے کوروناوائرس سے لڑنے کی سخت حکمتِ عملی مرتب کرنے کے لیے وزیرِ اعظم مودی نریندرامودی کے پیش کردہ خیال کا خیرمقدم کرتا ہوں۔میری حکومت شہریوں کو مہلک بیماری سے بچانے کیلئے سارک ممبر ممالک کے قریب رہکر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔
بھوٹان کے وزیرِ اعظم نے بھی ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ 'اسی کو قیادت کہتے ہیں'۔ایسے موقع پر ہمیں متحد ہوکر ایک ساتھ آنے کی ضرورت ہے ۔چھوٹی معیشتیں متاثر ہوتی ہیں لہٰذا ہمیں لازما ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہیئے۔آپ کی قیادت میں ہم جلد ہی ایک بااثر نتیجہ دیکھیں گے اور مجھے اس بات پر کوئی شک نہیں ہے۔ویڈیو کانفرنس کا انتظار ہے'۔
اگر پاکستان سارک کی آئندہ اجلاس کی میزبانی کرنے کے حق کو چھوڑ دے تب ہی سارک اپنے اجلاس کرنے کی جگہ کو تبدیل کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔
وزیر اعظم مودی کی جانب سے 'کورونا کے اجتماعی ردعمل کی ضرورت پر زور' دینے والا یہ بیان تب سامنے آیا جب بھارتی حکومت کے ذریعہ کوویڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے وزارت خارجہ، داخلہ اور خاندانی بہبود اور صحت محکمہ کے عہدیداروں کی مشترکہ بریفینگ کے دوران تبادلہ خیال کرنے کے لیے 100بیرون ممالک اور بین الاقوامی تنظمیوں کے نمائندوں نے حصہ لیا۔
وزیرِ اعظم مودی کے سارک منصوبہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اوبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے صدر سمیر سرن نے ٹویٹ کیا یہ سارک تک اپنی بات کی ترسیل کرنے کا اہم ذریعہ ہے اور سب کے تعاون اور تجربوں کے اشتراک ہمارے لیے فائدہ مند ہوگا۔ تاہم یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سارک ممالک کے اپنے سیاسی اختلافات کو بالا طاق رکھ کر انسانیت کا دامن تھام لیتی ہے تو شاید کورونا وائرس کو ہرانے کے لیے بہتر راستے تلاشے جاسکتے ہیں، جو عالمی سطح پر ہزاروں جانیں لینے کا باعث بنا ہے۔