آب و ہوا مختلف جگہوں پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔کچھ مقامات میں سائیکلون اور سیلاب جیسے شدید حالات مرتب ہیں وہیں کچھ مقامات میں گرم ہوائیں اور قحط سالی کا عالم ہے۔
ماحولیات میں انتہائی تبدیلی انسان کے جان و مال کے نقصان کا سبب بن رہی ہے وہیں یہ تمام عوامل بھی معیشیت کو متاثر کرنے کی وجوہات بن رہے ہیں۔
حال ہی میں ریاست مہاراشٹر میں شدید بارش ہوئی، جس کے نتیجے میں ناسک میں موجود پانی کے ذخائر مکمل طور پر بھر گئے۔
وہیں چند مہینے قبل اسی علاقے کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔
گزشتہ مہینے ممبئی میں بھی سیلاب جیسے حالات پیدا ہوگئے تھے۔یہ تمام وجوہات ماحولیاتی تبدیلی کو واضح کرتی ہیں۔
بھارت کے شمالی ساحلوں میں برس 2013 سے2019 کے درمیان سائیکلون نے 140سے 260 فی کلومیڑ کی رفتار سے تباہیاں مچائی ہیں۔
اس ہی دوران بھارت کے دیگر ریاستیں قحط سالی اور گرم ہوائوں کی مار سے دو چار تھے۔
مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، تلنگانہ، اڈیشہ، اترپردیش، چنڈی گڑھ، دہلی، راجستھان اور بہار جیسی ریاستوں میں موسم گرما کے وقت درجہ حرارت 50 ڈگری سیلیس تک پہنچ گئی تھی۔
وہیں اس کے برعکس بھارت کی دیگر ریاستیں کیرلا، تمل ناڈو، گجرات اور آسام سیلاب سے متاثرکن تھے۔اب اس مسئلے پر سب کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
وہیں پورے عالم میں ہر برس درجہ حرارت میں0.8 ڈگری سیلسیس اضافہ ہورہا ہے۔ 1951 سے 1980 کے درمیان اوسط درجہ حرارت 14.2 ڈگری سیلسیس درج کی گئی ہے۔سال 1990 سے 2018 کے دوران درجہ حرارت میں سب سے زیادہ شدت دیکھی گئی۔
اس صدی کے آخر تک ، ایک اندیشے کے مطابق درجہ حرارت اوسط ڈگری سے 4 ڈگری زائد ہوگا۔ 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدہ میں اتفاق کیا گیا ہے کہ آئندہ 10 برسوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 45 فیصد کم کیا جائے گا اور 2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراجات کو ختم کریں گے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ساحلی علاقے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔
بنجر علاقوں اب پانی کی کمی سے مزید متاثر ہوں گے۔متعدد پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ٹروپکل علاقے میں گرم ہواؤں کا قحر ہوگا۔قحط سالی، سائیکلون اور سیلاب جیسے حادثے متواتر ہوں گے۔حیاتیاتی تنوع بری طرح متاثر ہوں گے۔
لیتھوسفیئر شدید بارش، گرم لہروں اور سائیکلون کی وجہ سے گرم ہوجارہی ہے۔دنیا کی تمام میٹرپولیٹن شہر سے 60 فیصد کاربن خارج ہوتا ہے۔شہری علاقے میں تیزی سے اضافہ ہونے کی وجہ سے ہریالی ختم ہورہی ہے۔
سمنٹ کی عمارتیں، گاڑیاں اور اے سی جیسی مشینیں ہی گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ کررہی ہیں، جس سے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔تھرمل پاؤر اسٹیشن اور رکازی ایندھن گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں وجہ بن رہی ہے۔انسان کی خود غرضی ماحولیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ ہے۔ اقوام متحدہ کے کلائیمٹ ایکشن سمٹ 2019 کی روپورٹ کے مطابق جنگلات کی کٹائی، زراعت اور انسانی سرگرمی کی وجہ سے 70 فیصد سے زائد نقصان ہوا ہے۔
صنعتی انقلاب کے آغاز سے لے کر اب تک 300 ارب ٹن میں سے دو تہائی کاربن کے اخراج کے لیے انسانی سرگرمی ذمہ دار ہے۔جنگلات لگانے کی مدد سے ہی 205 ارب ٹن کاربن اخراج میں کمی آئی ہے۔
اس وقت 4.4 ارب ہیکٹر زمین میں شجرکاری کی جاسکتی ہے جس میں سے 2.8 ارب ہیکٹر زمین میں پہلے سے ہی درخت لگے ہوئے ہیں۔باقی علاقے میں محض 0.9 ارب ہیکٹر زمین ایسے ہیں جو شجرکاری کے لیے موزوں ہیں جو کاربن اخراج کے دو تہائی حصے کو جذب کرسکتا ہے۔
اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق جو درخت اب موجود ہیں وہ صرف برس 2100 تک ہی کاربن کو جذب کرسکتی ہے۔جنگلات کو وسیع پیمانے پر بڑھانا ہی وقت کی ضرورت ہے تاکہ گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے آفات سے دنیا کو بچایا جاسکے۔