یہ حقیقت کہ ہر خیال ایک مستقبل اور ہر گزرا لمحہ ماضی کے گنجلک اندھیروں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن تحریر تادم حیات زندہ ہے اور رہے گی، لکھنے والے منوں مٹی کے نیچے دب کر خاک میں مل جاتے ہیں لیکن ان کی کہی باتیں ہمیشہ لوگوں کے خیال و ذہن میں انہیں زندہ رکھتی ہیں۔
انہیں منوں مٹی کے نیچے دبنے اور لوگوں کی زبان اور خیالوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں ایک نام فیض احمد فیض بھی ہے۔
فیض احمد فیض صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک تہذیب اور ایک تاریخ ہے، جسے گردش زمانہ چاہ کر بھی مٹا نہیں سکتا۔
فیض احمد فیض کی غزلیں، ان کی نظمیں ہر دور اور ہر وقت کے لیے ایک شمع کے مانند ہیں۔
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
اب جس کے جی میں آئے، پائے وہ روشنی
قتیل شفائی کا شعر یقینا فیض احمد فیض کی لافانی زندگی کو بڑی خوبی کے ساتھ بیان کرتا ہے، فیض نے رومانیت اور انقلابی دونوں طرح کی شاعری کی، خاص طور پر ان کی انقلابی شاعری نے ہمیشہ حکومت وقت سے پنجہ آزمائی کی ہے۔
ایک طرف جہاں حکومت کی جانب سے متنازعہ قانون ہر عام و خاص کو بےچین کر رہا ہے وہیں فیض کی نظمیں حکومت کے دل و دماغ پر سنگ گراں ثابت ہورہی ہیں۔
فیض کی نظموں کے حوالے سے آج جسے جو سمجھ میں آرہا کہتے پھر رہا ہے کیونکہ انہوں نے نہ تو فیض کو سمجھا اور نہ ہی فیض کی شاعری کو۔
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔
فیض کی اس نظم پر فن شاعری سے ناواقف کچھ لوگوں نے انہیں جس طور پر ہدف تنقید بنایا ہے، وہ یقیناً قابل افسوس ہے۔
مشہور نغمہ نگار جاوید اختر نے فیض احمد فیض کی نظم 'ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے' کے تعلق سے ان نا سمجھوں کے ذہن و دماغ میں فیض کے تعلق سے بیٹھے پرا گندہ خیال کو سمجھانے کی کوشش کی ہے.
مزید پڑھیں:لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے: فیض احمد فیض پر خصوصی پیشکش
افسوس کہ جو لوگ ان کی شاعری میں آج مذہب کو ڈھونڈھتے پھر رہیں ہیں انہیں یہی پتہ نہیں کہ فیض کو سب کچھ سے لگاؤ تھا سوائے مذہب کے۔
انہوں نے کبھی نہ تو مذہب کی بات کی اور نہ مذہبی بننے کی کوشش کی۔ فیض تو خود کو ایک ملحد قرار دیا کرتے تھے لیکن آج کی سیاست نے انہیں دین و مذہب کا علمبردار گردانتے ہوئے ان کی تحریر میں مذہبیت کے رنگ کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی۔