ETV Bharat / bharat

سی بی آئی کے عروج و زوال پر ایک رپورٹ

ای ٹی وی بھارت کی سینئرصحافی چندرا کلا چودھری نے سابق سی بی آئی جوائنٹ ڈائریکٹر، این کے سنگھ سے سی بی آئی کی کارکردگی، تبدیلی ، ناکامی اور دیگر امور پر تفصیلی بات چیت کی۔

سی بی آئی کے عروج و زوال پر ایک جھلک
سی بی آئی کے عروج و زوال پر ایک جھلک
author img

By

Published : Aug 24, 2020, 10:34 PM IST

سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (قومی تحقیقاتی ایجنسی) نے بالی ووڈ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی انتہائی متنازعہ موت کی تحقیقات شروع کردی ہیں، جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تب سے سی بی آئی سرخیوں میں ہے۔

بھارتی معاشرہ کا اس تنظیم کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے محبت اور نفرت کا رشتہ رہا ہے۔ سی بی آئی کو غیر قانونی اور معروضی طور پر قانون کی ایجنسی کی حیثیت سے کام کرنے میں ناکام ہونے پر اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بااثر افراد سے متعلقہ پیچیدہ معاملات کی تحقیقات کا ہمیشہ سے مطالبہ بھی رہا ہے۔

سابق سی بی آئی جوائنٹ ڈائریکٹر این کے سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا ، "سی بی آئی میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ میں نے 10 برس سی بی آئی میں خدمت انجام دی ہیں۔ آج کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جسا وہ پہلے تھا، جس میں سی بی آئی بھی ایک ہے۔ لوگوں کا سی بی آئی پر بہت زیادہ اعتماد ہے، حالانکہ بعض اوقات، وہ اچھے کام کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اور بعض اوقات اسے اچھے کام کا کریڈٹ بھی ملتا ہے۔ میں نے سینٹ کٹس جعلسازی کیس، اور اس طرح کے بہت سارے بدعنوانی کے کیسز سمیت ہر طرح کے معاملات کا ذمہ لیا تھا۔

سابق سی بی آئی افسر نے 2 اکتوبر 1977 کو اندرا گاندھی کو گرفتار کیا تھا جس کے نتیجے میں سابق بھارتی وزیر اعظم کو جیل بھیج دیا گیا۔

سنگھ نے مزید کہا ، "کسی بھی معاملے کو لینے کے لئے سی بی آئی کو حکومت سے کلیئرنس لینا ہوتا ہے، جو پہلے نہیں تھا۔ اس سے سی بی آئی کی آزاد خودمختاری پر شک کا سایہ پڑا۔ پھر بھی لوگوں کو سی بی آئی پر اعتماد ہے"۔

سی بی آئی کے کام کرنے والے طریقہ کار میں کوئی بھی سیاسی مداخلت سازگار نہیں ہے۔ اگرچہ حکومت کے پاس سی بی آئی کی نگرانی کرنے اور امداد اور مالی مدد فراہم کرنے کا اختیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ حال ہی میں جو بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ ملک کی ممتاز تفتیشی ایجنسی کے آزادانہ کام کے لئے موافق نہیں ہیں۔

بدعنوانی سے لے کر قتل تک، سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن بھارتی لوگوں کے لئے تحقیقات کرنے والی ایجنسی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ ہمیشہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ جب بھی بھارت میں کوئی اہمیت کا حامل معاملہ ہوتا ہے، تو سی بی آئی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کچھ سیاستدانوں یا بڑے کاروباری شخص کا ہائی پروفائل کیس ہو یا پھر بینک فراڈ، بدنام زمانہ جنسی زیادتی کے معاملات ہوں، سی بی آئی نے ان سب پرکام کیا ہے لیکن اس زبردست کارکردگی میں سی بی آئی کے زیر انتظام ان کیسز کا احاطہ نہیں کیا گیا جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔

آئیے سی بی آئی کے اتار چڑھاو پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

کچھ سنسنی خیز معاملات جو سی بی آئی نے سنبھالے ہیں۔

1: سٹرلنگ بائیوٹیک اسکیام

بدنام زمانہ سٹرلنگ بائیوٹیک اسکیم، جہاں دو افراد وڈودرا میں قائم اسٹرلنگ بائیوٹیک کے ڈائریکٹرز چیتن سندیسرا اور ان کے بھائی سندیسرا، نے مبینہ طور پر 5،700 کروڑ روپئے کا دھوکہ آدھے درجن بینکز کو دیا تھا، سی بی آئی کو کچھ ڈائریاں ملی تھیں جن میں ادائیگی کی تفصیلات موجود تھیں۔ جس میں 2011 جنوری اور جون میں لوگوں اور فرمز کو سٹرلنگ بائیوٹیک کی جانب سے ادائیگی بھی شامل ہے۔

2: وجئے مالیا کیس

سب سے زیادہ زیربحث بھارتی بزنس مین اور شراب فروش وجئے مالیا کا بینک فراڈ کیس۔ مالیہ 2016 میں 9000 کروڑ روپئے کے قریب متعدد بینکز کو دھوکہ دینے کے بعد بھارت سے برطانیہ فرار ہوگیا۔

3:ہیلی کاپٹر گھوٹالہ

سی بی آئی کے ذمے ایک اور حساس معاملہ 3600 کروڑ روپئے کا اگسٹا ویسٹلینڈ ہیلی کاپٹر گھوٹالہ ہے، جس میں درمیانی لوگ اور سیاست دانوں پر رشوت لینے کا الزام ہے۔ اٹلی کے دفاعی مینوفیکچرنگ کمپنی فائنمیکانیکا کی طرف سے بنائے گئے 12 اگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر کی خریدی کے لیے رضامندی کے بعد رشوت کا معاملہ منظر عام پر آیا۔

4: شاردا چٹ فنڈ اسکیام

شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ، جو 2013 میں منظرعام پر آیا تھا، سی بی آئی نے تفتیش کی۔ شاردا گروپ پر پونزی اسکیمز چلاتے ہوئے اپنے دس لاکھ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم، ان کی اہلیہ نلینی کا نام پونزی اسکیمز میں معاونت کرنے میں مبینہ کردار کے لئے رکھا تھا۔

سی بی آئی کی ناکامی

سنسنی خیز آروشی قتل کیس، 2 جی سپیکٹرم کی الاٹمنٹ میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے معاملات میں، سی بی آئی کی تحقیقات کو نہ صرف ٹرائل کورٹز، اعلی عدالتیں بلکہ عدالت عظمی نے بھی سخت تنقید کی تھی۔

یو پی اے کی قیادت والی حکومت کے دوران 2 جی اسپیکٹرم کا معاملہ سامنے آیا۔ سی بی آئی نے چار مختلف معاملات میں لاکھوں صفحات پر مشتمل دستاویزات کے ساتھ چارج شیٹ داخل کی لیکن ایجنسی کا ایک بھی جرم ثابت نہیں ہوسکا۔

رواں سال مارچ میں ایک نیوز ایجنسی کے ذریعہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ، سی بی آئی نے یکم جنوری 2015 سے 29 فروری 2020 کے درمیان 4،985 کیسز بشمول 4300 باقاعدہ کیسز اور 685 ابتدائی تفتیش کے کیسز درج کیے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق، اس عرصے کے دوران سی بی آئی نے 4717 کیسز کی تفتیش کی ہے۔

یکم جنوری، 2015 سے29 فروری، 2020 تک، سی بی آئی نے 3،700 کیسز میں چارج شیٹ داخل کی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سی بی آئی کی سزا کی شرح 65-70 فیصد ہے، جس کا دنیا کی بہترین تفتیشی ایجنسیوں کے ساتھ موازنہ ہے۔ لیکن خودکشی کے معاملات کو حل کرنے میں یہ مظاہرہ خاطر خواہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:غلام نبی آزاد کے استعفیٰ کی پیشکش پر اویسی کا ردعمل

سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (قومی تحقیقاتی ایجنسی) نے بالی ووڈ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی انتہائی متنازعہ موت کی تحقیقات شروع کردی ہیں، جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تب سے سی بی آئی سرخیوں میں ہے۔

بھارتی معاشرہ کا اس تنظیم کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے محبت اور نفرت کا رشتہ رہا ہے۔ سی بی آئی کو غیر قانونی اور معروضی طور پر قانون کی ایجنسی کی حیثیت سے کام کرنے میں ناکام ہونے پر اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بااثر افراد سے متعلقہ پیچیدہ معاملات کی تحقیقات کا ہمیشہ سے مطالبہ بھی رہا ہے۔

سابق سی بی آئی جوائنٹ ڈائریکٹر این کے سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا ، "سی بی آئی میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ میں نے 10 برس سی بی آئی میں خدمت انجام دی ہیں۔ آج کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جسا وہ پہلے تھا، جس میں سی بی آئی بھی ایک ہے۔ لوگوں کا سی بی آئی پر بہت زیادہ اعتماد ہے، حالانکہ بعض اوقات، وہ اچھے کام کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اور بعض اوقات اسے اچھے کام کا کریڈٹ بھی ملتا ہے۔ میں نے سینٹ کٹس جعلسازی کیس، اور اس طرح کے بہت سارے بدعنوانی کے کیسز سمیت ہر طرح کے معاملات کا ذمہ لیا تھا۔

سابق سی بی آئی افسر نے 2 اکتوبر 1977 کو اندرا گاندھی کو گرفتار کیا تھا جس کے نتیجے میں سابق بھارتی وزیر اعظم کو جیل بھیج دیا گیا۔

سنگھ نے مزید کہا ، "کسی بھی معاملے کو لینے کے لئے سی بی آئی کو حکومت سے کلیئرنس لینا ہوتا ہے، جو پہلے نہیں تھا۔ اس سے سی بی آئی کی آزاد خودمختاری پر شک کا سایہ پڑا۔ پھر بھی لوگوں کو سی بی آئی پر اعتماد ہے"۔

سی بی آئی کے کام کرنے والے طریقہ کار میں کوئی بھی سیاسی مداخلت سازگار نہیں ہے۔ اگرچہ حکومت کے پاس سی بی آئی کی نگرانی کرنے اور امداد اور مالی مدد فراہم کرنے کا اختیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ حال ہی میں جو بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ ملک کی ممتاز تفتیشی ایجنسی کے آزادانہ کام کے لئے موافق نہیں ہیں۔

بدعنوانی سے لے کر قتل تک، سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن بھارتی لوگوں کے لئے تحقیقات کرنے والی ایجنسی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ ہمیشہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ جب بھی بھارت میں کوئی اہمیت کا حامل معاملہ ہوتا ہے، تو سی بی آئی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کچھ سیاستدانوں یا بڑے کاروباری شخص کا ہائی پروفائل کیس ہو یا پھر بینک فراڈ، بدنام زمانہ جنسی زیادتی کے معاملات ہوں، سی بی آئی نے ان سب پرکام کیا ہے لیکن اس زبردست کارکردگی میں سی بی آئی کے زیر انتظام ان کیسز کا احاطہ نہیں کیا گیا جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔

آئیے سی بی آئی کے اتار چڑھاو پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

کچھ سنسنی خیز معاملات جو سی بی آئی نے سنبھالے ہیں۔

1: سٹرلنگ بائیوٹیک اسکیام

بدنام زمانہ سٹرلنگ بائیوٹیک اسکیم، جہاں دو افراد وڈودرا میں قائم اسٹرلنگ بائیوٹیک کے ڈائریکٹرز چیتن سندیسرا اور ان کے بھائی سندیسرا، نے مبینہ طور پر 5،700 کروڑ روپئے کا دھوکہ آدھے درجن بینکز کو دیا تھا، سی بی آئی کو کچھ ڈائریاں ملی تھیں جن میں ادائیگی کی تفصیلات موجود تھیں۔ جس میں 2011 جنوری اور جون میں لوگوں اور فرمز کو سٹرلنگ بائیوٹیک کی جانب سے ادائیگی بھی شامل ہے۔

2: وجئے مالیا کیس

سب سے زیادہ زیربحث بھارتی بزنس مین اور شراب فروش وجئے مالیا کا بینک فراڈ کیس۔ مالیہ 2016 میں 9000 کروڑ روپئے کے قریب متعدد بینکز کو دھوکہ دینے کے بعد بھارت سے برطانیہ فرار ہوگیا۔

3:ہیلی کاپٹر گھوٹالہ

سی بی آئی کے ذمے ایک اور حساس معاملہ 3600 کروڑ روپئے کا اگسٹا ویسٹلینڈ ہیلی کاپٹر گھوٹالہ ہے، جس میں درمیانی لوگ اور سیاست دانوں پر رشوت لینے کا الزام ہے۔ اٹلی کے دفاعی مینوفیکچرنگ کمپنی فائنمیکانیکا کی طرف سے بنائے گئے 12 اگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر کی خریدی کے لیے رضامندی کے بعد رشوت کا معاملہ منظر عام پر آیا۔

4: شاردا چٹ فنڈ اسکیام

شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ، جو 2013 میں منظرعام پر آیا تھا، سی بی آئی نے تفتیش کی۔ شاردا گروپ پر پونزی اسکیمز چلاتے ہوئے اپنے دس لاکھ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم، ان کی اہلیہ نلینی کا نام پونزی اسکیمز میں معاونت کرنے میں مبینہ کردار کے لئے رکھا تھا۔

سی بی آئی کی ناکامی

سنسنی خیز آروشی قتل کیس، 2 جی سپیکٹرم کی الاٹمنٹ میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے معاملات میں، سی بی آئی کی تحقیقات کو نہ صرف ٹرائل کورٹز، اعلی عدالتیں بلکہ عدالت عظمی نے بھی سخت تنقید کی تھی۔

یو پی اے کی قیادت والی حکومت کے دوران 2 جی اسپیکٹرم کا معاملہ سامنے آیا۔ سی بی آئی نے چار مختلف معاملات میں لاکھوں صفحات پر مشتمل دستاویزات کے ساتھ چارج شیٹ داخل کی لیکن ایجنسی کا ایک بھی جرم ثابت نہیں ہوسکا۔

رواں سال مارچ میں ایک نیوز ایجنسی کے ذریعہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ، سی بی آئی نے یکم جنوری 2015 سے 29 فروری 2020 کے درمیان 4،985 کیسز بشمول 4300 باقاعدہ کیسز اور 685 ابتدائی تفتیش کے کیسز درج کیے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق، اس عرصے کے دوران سی بی آئی نے 4717 کیسز کی تفتیش کی ہے۔

یکم جنوری، 2015 سے29 فروری، 2020 تک، سی بی آئی نے 3،700 کیسز میں چارج شیٹ داخل کی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سی بی آئی کی سزا کی شرح 65-70 فیصد ہے، جس کا دنیا کی بہترین تفتیشی ایجنسیوں کے ساتھ موازنہ ہے۔ لیکن خودکشی کے معاملات کو حل کرنے میں یہ مظاہرہ خاطر خواہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:غلام نبی آزاد کے استعفیٰ کی پیشکش پر اویسی کا ردعمل

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.