ETV Bharat / bharat

جب اندرا گاندھی نے 45 برس قبل ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا - پریس پر عائد سینسرشپ

سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 25 جون 1975 کو ملک گیر سطح پر ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایمرجنسی ملک میں 21 ماہ تک نافذ رہی تھی۔ ایمرجنسی کے حالات پر پیش ہے ای ٹی وی بھارت کی خصوصی رپورٹ۔۔۔

45 years to emergency: a look at what led to this controversial period of independent india
ایمرجنسی کے 45 برس مکمل: اب تک کی ٹائم لائن پر ایک نظر
author img

By

Published : Jun 25, 2020, 12:41 PM IST

Updated : Jun 25, 2020, 3:22 PM IST

پچیس جون 1975 کی آدھی رات کو سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے ملک بھر میں نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا جو 21 ماہ پر محیط تھی۔

اس وقت کے صدر فخر الدین علی احمد نے باضابطہ طور پر آئین کے آرٹیکل (1) 352 کے تحت 'داخلی پریشانی' کے نام پر ایمرجنسی کو نافذ کیا تھا۔

اس مضمون میں ای ٹی وی بھارت نے واقعات کی ٹائم لائن کا پتہ لگایا ہے۔ اس کے ذریعہ ایمرجنسی سے قبل کے واقعات اور اس کے اسباب و محرکات کو جاننے میں مدد ملے گی:

  • ایمرجنسی کی وجہ کیا تھی؟

بہت سے عوامل اور واقعات تھے جن کی وجہ سے ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی۔ ایمرجنسی کے اعلان سے قبل ملک میں کسادبازاری کا دور دورہ تھا۔ معاشی پریشانیوں سے ملک بھر کے عوام جوجھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ روزگاری، مہنگائی اور خوراک کی کمی سمیت پورے ملک میں وسیع پیمانے پر فسادات اور احتجاج ہو رہے تھے۔

یہاں 1970 کی دہائی کی چار اہم پیشرفتیں پیس کی جارہی ہیں جو ہنگامی اعلان کے لیے اہم ثابت ہوئی:

  • گجرات میں نونرمان آندولن

سنہ 1973 سے مارچ 1974 کے درمیان گجرات میں ابتدائی طور پر ریاست کے طلبا کی طرف سے فیس میں اضافے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کیے گئے۔ جس کے بعد فیکٹری ملازمین اور دیگر لوگوں نے بھی بدعنوانی پر کانگریس کی زیرقیادت ریاستی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔

اس احتجاج کو 'نونرمان تحریک' یا ری جنریشن کی تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

فروری 1974 میں مرکزی حکومت نے ریاست کی اسمبلی کو معطل کرنے اور ریاست پر صدر راج لگانے پر مجبور ہوگئی۔

  • جے پی کی تحریک

مارچ 1974 میں بہار میں بھی اسی طرح کے طلبا احتجاج کا آغاز 'بہار چترا سنگھرش سمیتی' کی قیادت میں ہوا جس کو گاندھیائی سوشلسٹ جئے پرکاش نارائن (جو جے پی کے نام سے مشہور ہوئے) نے بہار حکومت کے خلاف سیاسی تبدیلی کے لیے بھی استعمال کیا۔

جئے پرکاش نارائن کی شمولیت کے بعد بالآخر یہ تحریک، جے پی موومنٹ کے نام سے مشہور ہوئی جو پہلے بہار موومنٹ کے نام سے مشہور تھی۔

جے پی نے طلبا، کسان اور مزدور یونینز سے بھارتی معاشرے کو عدم تشدد کی شکل دینے کے لئے 'مکمل انقلاب' کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے ریاستی حکومت کو تحلیل کرنے کا مطالبہ بھی کیا لیکن مرکز نے اسے قبول نہیں کیا۔

اس تحریک کے نتیجے میں اندرا گاندھی نے جے پی کی تحریک کو 'ماورائے پارلیمان' ہونے کی مذمت کی اور عام انتخابات میں جے پی کو ان کا سامنا کرنے کے لئے چیلینج کیا۔

  • ریلوے کا احتجاج:

مئی 1974 میں سوشلسٹ رہنما جارج فرنانڈیز کی سربراہی میں ریلوے کی ہڑتال شروع کی گئی جس کے نتیجے میں ملک بھر میں اشیا اور عوام کی نقل و حرکت میں خلل پڑا۔

تقریبا تین ہفتوں تک جاری اس ہڑتال میں دس لاکھ سے زیادہ ریلوے ملازمین کی شرکت دیکھی گئی۔ اس دور کی تاریخ پر مشہور مورخ رامچندر گوہا نے اپنی کتاب 'انڈیا آف گاندھی' بھی لکھی ہے۔

مرکز نے ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے اور کئی ریلوے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اپنے حلقوں سے باہر نکال کر اس تحریک کو کچل دیا۔

  • الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ:

تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھوکی گئی جب ایک سوشلسٹ رہنما راج نارائن نے اندرا گاندھی پر بدعنوان انتخابی طریقوں کا الزام عائد کیا اور الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔

نارائن 1971 کے لوک سبھا انتخابات میں رائے بریلی سے ہار گئے جو آج تک کانگریس کا گڑھ ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگ موہن لال سنہا نے 12 جون 1975 کو اندرا گاندھی کو قصوروار ٹھہرایا اور ان کو 1971 کے پارلیمانی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر لوک سبھا سیٹ سے بے دخل کر دیا۔ اس بنا پر کہ انہوں نے سرکاری اہلکاروں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جبکہ وہ خود اپنے فیصلے پر 20 دن کی مہلت مانگ رہی تھی تاکہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل کرسکے۔

  • ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج

اندرا گاندھی نے ہائی کورٹ کے حکم کو عدالت عظمی میں چیلنج کیا۔ 24 جون 1975 کو سپریم کورٹ کے جسٹس وی آر کرشنا ایئر نے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں جانے کی اجازت دینے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر مشروط روک لگا دی جب تک کہ خود عدالت ان کی اپیل پر فیصلہ سنا نہیں دیتی ہے۔

اس کے بعد 25 جون 1975 کی شام جے پی، مورارجی دیسائی، راج نارائن، ناناجی دیشمکھ، مدن لال کھرانا اور کئی دیگر سیاسی رفقا نے رام لیلا میدان میں ایک بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی سے استعفی دینے کا مطالبہ کیا لیکن وہ مضبوطی سے وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہیں۔

جے پی نے رامدھاری سنگھ دنکر کی نظم 'سنگھاسن خالی کرو / جنتا آتی ہے (اپنے تخت کو چھوڑ دو، کیونکہ لوگ آرہے ہیں) سنائی۔ جس سے شرکا میں جوش بڑھ گیا۔

انہوں نے فوج اور پولیس کو تاکید کی کہ وہ ان احکامات پر عمل نہ کریں جنہیں وہ غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھتے ہیں۔

یہ ساری پیشرفت ایک آرڈیننس کی شکل اختیار کر گئی جو داخلی ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے تیار کیا گیا تھا اور صدر نے اس پر فورا دستخط کر دیے۔

ایمرجنسی کے اعلان کی درخواست کرتے ہوئے صدر کو لکھے گئے خط میں اندار گاندھی نے لکھا تھا کہ 'ہم تک ایسی اطلاع پہنچ گئی ہے جو بھارت کی سلامتی کو لاحق خطرے کی نشاندہی کرتی ہے'۔

آزاد بھارت کی تاریخ میں یہ تیسرا موقع تھا، جب ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے دو بار ایمرجنسی نافذ کرائی گئی تھی۔ پہلی بار 1962 میں چین کے ساتھ جنگ ​​کے دوران اور دوسری بار 1971 میں جب بھارت نے پاکستان کے ساتھ جنگ ​​لڑی تھی جس کی وجہ سے بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا تھا۔

  • ہنگامی مدت:

جے پی، مورار جی دیسائی، جارج فرنانڈیز، اٹل بہاری واجپئی، ایل کے اڈوانی اور ارون جیٹلی سمیت حزب اختلاف کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کو ان کی رہائش گاہوں سے اٹھا کر آدھی رات کو حراست میں لے لیا گیا۔

تاہم ہنگامی صورتحال کا سب سے زیادہ تنقیدی پہلو ملک کے پریس پر عائد سینسرشپ تھا جس کے ذریعہ اظہار رائے اور بولنے کی آزادی کو ختم کیا گیا۔

اس کے بعد 25 جون کی شب متعدد اخبارات کے دفاتر کو بجلی کی فراہمی منقطع کر دی گئی تھی تاکہ وہ اس پیشرفت کی اطلاع نہ دے سکے۔

اندرا گاندھی حکومت نے کچھ اصول اور ہدایات وضع کیں جس کے مطابق ملک بھر کے صحافیوں کو عمل پیرا ہونا تھا۔ پریس کو کچھ شائع کرنے سے پہلے پریس ایڈوائزر سے اجازت لینا تھی۔

اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے کئی اخبارات نے رام ناتھ گوئنکا کی ملکیت والے انڈین ایکسپریس کی طرح خالی صفحات شائع کیے۔ اگرچہ بیشتر اخبارات نے چند ہفتوں کے بعد دباؤ کا سامنا کیا، لیکن انڈین ایکسپریس اس سے مستثنیٰ رہا۔

اس وقت سے انسانی حقوق کی متعدد دوسری خلاف ورزیوں کی اطلاع ملی تھی جن میں وزیراعظم کے بیٹے سنجے گاندھی کی سربراہی میں زبردستی بڑے پیمانے پر نس بندی کی مہم بھی شامل تھی۔

  • ایمرجنسی کے بعد کیا ہوا؟

مارچ کی 21 تاریخ سنہ 1977 کو ہنگامی صورتحال منسوخ کرنے کے بعد اندرا گاندھی نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کو جیل سے رہا کیا اور فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے پریس کی آزادی کو بحال کیا۔

کانگریس پارٹی سے استعفی کے بعد مورارجی دیسائی کی وزارت عظمیٰ میں 21 ماہ کی مدت کے لئے جنتا پارٹی کی حکمرانی کا راستہ ہموار ہوگیا۔

سنہ 1978 میں جنتا پارٹی کی حکومت نے آئین کی 44 ویں ترمیم کے ذریعہ 'داخلی بگاڑ' کے الفاظ کو 'مسلح بغاوت' کے الفاظ میں تبدیل کردیا اور اس کے بعد سے اس آرٹیکل کے ساتھ مزید کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔

اس طرح ایمرجنسی کا دور ختم ہوا۔ اس دور میں سرگرم بہت سے نئے چہروں کو مقبولیت بھی ملی۔ یوں بھارت میں ایمر جنسی کے بعد ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوا۔

پچیس جون 1975 کی آدھی رات کو سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے ملک بھر میں نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا جو 21 ماہ پر محیط تھی۔

اس وقت کے صدر فخر الدین علی احمد نے باضابطہ طور پر آئین کے آرٹیکل (1) 352 کے تحت 'داخلی پریشانی' کے نام پر ایمرجنسی کو نافذ کیا تھا۔

اس مضمون میں ای ٹی وی بھارت نے واقعات کی ٹائم لائن کا پتہ لگایا ہے۔ اس کے ذریعہ ایمرجنسی سے قبل کے واقعات اور اس کے اسباب و محرکات کو جاننے میں مدد ملے گی:

  • ایمرجنسی کی وجہ کیا تھی؟

بہت سے عوامل اور واقعات تھے جن کی وجہ سے ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی۔ ایمرجنسی کے اعلان سے قبل ملک میں کسادبازاری کا دور دورہ تھا۔ معاشی پریشانیوں سے ملک بھر کے عوام جوجھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ روزگاری، مہنگائی اور خوراک کی کمی سمیت پورے ملک میں وسیع پیمانے پر فسادات اور احتجاج ہو رہے تھے۔

یہاں 1970 کی دہائی کی چار اہم پیشرفتیں پیس کی جارہی ہیں جو ہنگامی اعلان کے لیے اہم ثابت ہوئی:

  • گجرات میں نونرمان آندولن

سنہ 1973 سے مارچ 1974 کے درمیان گجرات میں ابتدائی طور پر ریاست کے طلبا کی طرف سے فیس میں اضافے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کیے گئے۔ جس کے بعد فیکٹری ملازمین اور دیگر لوگوں نے بھی بدعنوانی پر کانگریس کی زیرقیادت ریاستی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔

اس احتجاج کو 'نونرمان تحریک' یا ری جنریشن کی تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

فروری 1974 میں مرکزی حکومت نے ریاست کی اسمبلی کو معطل کرنے اور ریاست پر صدر راج لگانے پر مجبور ہوگئی۔

  • جے پی کی تحریک

مارچ 1974 میں بہار میں بھی اسی طرح کے طلبا احتجاج کا آغاز 'بہار چترا سنگھرش سمیتی' کی قیادت میں ہوا جس کو گاندھیائی سوشلسٹ جئے پرکاش نارائن (جو جے پی کے نام سے مشہور ہوئے) نے بہار حکومت کے خلاف سیاسی تبدیلی کے لیے بھی استعمال کیا۔

جئے پرکاش نارائن کی شمولیت کے بعد بالآخر یہ تحریک، جے پی موومنٹ کے نام سے مشہور ہوئی جو پہلے بہار موومنٹ کے نام سے مشہور تھی۔

جے پی نے طلبا، کسان اور مزدور یونینز سے بھارتی معاشرے کو عدم تشدد کی شکل دینے کے لئے 'مکمل انقلاب' کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے ریاستی حکومت کو تحلیل کرنے کا مطالبہ بھی کیا لیکن مرکز نے اسے قبول نہیں کیا۔

اس تحریک کے نتیجے میں اندرا گاندھی نے جے پی کی تحریک کو 'ماورائے پارلیمان' ہونے کی مذمت کی اور عام انتخابات میں جے پی کو ان کا سامنا کرنے کے لئے چیلینج کیا۔

  • ریلوے کا احتجاج:

مئی 1974 میں سوشلسٹ رہنما جارج فرنانڈیز کی سربراہی میں ریلوے کی ہڑتال شروع کی گئی جس کے نتیجے میں ملک بھر میں اشیا اور عوام کی نقل و حرکت میں خلل پڑا۔

تقریبا تین ہفتوں تک جاری اس ہڑتال میں دس لاکھ سے زیادہ ریلوے ملازمین کی شرکت دیکھی گئی۔ اس دور کی تاریخ پر مشہور مورخ رامچندر گوہا نے اپنی کتاب 'انڈیا آف گاندھی' بھی لکھی ہے۔

مرکز نے ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے اور کئی ریلوے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اپنے حلقوں سے باہر نکال کر اس تحریک کو کچل دیا۔

  • الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ:

تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھوکی گئی جب ایک سوشلسٹ رہنما راج نارائن نے اندرا گاندھی پر بدعنوان انتخابی طریقوں کا الزام عائد کیا اور الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔

نارائن 1971 کے لوک سبھا انتخابات میں رائے بریلی سے ہار گئے جو آج تک کانگریس کا گڑھ ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگ موہن لال سنہا نے 12 جون 1975 کو اندرا گاندھی کو قصوروار ٹھہرایا اور ان کو 1971 کے پارلیمانی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر لوک سبھا سیٹ سے بے دخل کر دیا۔ اس بنا پر کہ انہوں نے سرکاری اہلکاروں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جبکہ وہ خود اپنے فیصلے پر 20 دن کی مہلت مانگ رہی تھی تاکہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل کرسکے۔

  • ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج

اندرا گاندھی نے ہائی کورٹ کے حکم کو عدالت عظمی میں چیلنج کیا۔ 24 جون 1975 کو سپریم کورٹ کے جسٹس وی آر کرشنا ایئر نے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں جانے کی اجازت دینے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر مشروط روک لگا دی جب تک کہ خود عدالت ان کی اپیل پر فیصلہ سنا نہیں دیتی ہے۔

اس کے بعد 25 جون 1975 کی شام جے پی، مورارجی دیسائی، راج نارائن، ناناجی دیشمکھ، مدن لال کھرانا اور کئی دیگر سیاسی رفقا نے رام لیلا میدان میں ایک بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی سے استعفی دینے کا مطالبہ کیا لیکن وہ مضبوطی سے وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہیں۔

جے پی نے رامدھاری سنگھ دنکر کی نظم 'سنگھاسن خالی کرو / جنتا آتی ہے (اپنے تخت کو چھوڑ دو، کیونکہ لوگ آرہے ہیں) سنائی۔ جس سے شرکا میں جوش بڑھ گیا۔

انہوں نے فوج اور پولیس کو تاکید کی کہ وہ ان احکامات پر عمل نہ کریں جنہیں وہ غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھتے ہیں۔

یہ ساری پیشرفت ایک آرڈیننس کی شکل اختیار کر گئی جو داخلی ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے تیار کیا گیا تھا اور صدر نے اس پر فورا دستخط کر دیے۔

ایمرجنسی کے اعلان کی درخواست کرتے ہوئے صدر کو لکھے گئے خط میں اندار گاندھی نے لکھا تھا کہ 'ہم تک ایسی اطلاع پہنچ گئی ہے جو بھارت کی سلامتی کو لاحق خطرے کی نشاندہی کرتی ہے'۔

آزاد بھارت کی تاریخ میں یہ تیسرا موقع تھا، جب ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے دو بار ایمرجنسی نافذ کرائی گئی تھی۔ پہلی بار 1962 میں چین کے ساتھ جنگ ​​کے دوران اور دوسری بار 1971 میں جب بھارت نے پاکستان کے ساتھ جنگ ​​لڑی تھی جس کی وجہ سے بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا تھا۔

  • ہنگامی مدت:

جے پی، مورار جی دیسائی، جارج فرنانڈیز، اٹل بہاری واجپئی، ایل کے اڈوانی اور ارون جیٹلی سمیت حزب اختلاف کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد کو ان کی رہائش گاہوں سے اٹھا کر آدھی رات کو حراست میں لے لیا گیا۔

تاہم ہنگامی صورتحال کا سب سے زیادہ تنقیدی پہلو ملک کے پریس پر عائد سینسرشپ تھا جس کے ذریعہ اظہار رائے اور بولنے کی آزادی کو ختم کیا گیا۔

اس کے بعد 25 جون کی شب متعدد اخبارات کے دفاتر کو بجلی کی فراہمی منقطع کر دی گئی تھی تاکہ وہ اس پیشرفت کی اطلاع نہ دے سکے۔

اندرا گاندھی حکومت نے کچھ اصول اور ہدایات وضع کیں جس کے مطابق ملک بھر کے صحافیوں کو عمل پیرا ہونا تھا۔ پریس کو کچھ شائع کرنے سے پہلے پریس ایڈوائزر سے اجازت لینا تھی۔

اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے کئی اخبارات نے رام ناتھ گوئنکا کی ملکیت والے انڈین ایکسپریس کی طرح خالی صفحات شائع کیے۔ اگرچہ بیشتر اخبارات نے چند ہفتوں کے بعد دباؤ کا سامنا کیا، لیکن انڈین ایکسپریس اس سے مستثنیٰ رہا۔

اس وقت سے انسانی حقوق کی متعدد دوسری خلاف ورزیوں کی اطلاع ملی تھی جن میں وزیراعظم کے بیٹے سنجے گاندھی کی سربراہی میں زبردستی بڑے پیمانے پر نس بندی کی مہم بھی شامل تھی۔

  • ایمرجنسی کے بعد کیا ہوا؟

مارچ کی 21 تاریخ سنہ 1977 کو ہنگامی صورتحال منسوخ کرنے کے بعد اندرا گاندھی نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کو جیل سے رہا کیا اور فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے پریس کی آزادی کو بحال کیا۔

کانگریس پارٹی سے استعفی کے بعد مورارجی دیسائی کی وزارت عظمیٰ میں 21 ماہ کی مدت کے لئے جنتا پارٹی کی حکمرانی کا راستہ ہموار ہوگیا۔

سنہ 1978 میں جنتا پارٹی کی حکومت نے آئین کی 44 ویں ترمیم کے ذریعہ 'داخلی بگاڑ' کے الفاظ کو 'مسلح بغاوت' کے الفاظ میں تبدیل کردیا اور اس کے بعد سے اس آرٹیکل کے ساتھ مزید کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔

اس طرح ایمرجنسی کا دور ختم ہوا۔ اس دور میں سرگرم بہت سے نئے چہروں کو مقبولیت بھی ملی۔ یوں بھارت میں ایمر جنسی کے بعد ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوا۔

Last Updated : Jun 25, 2020, 3:22 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.