ملک کو آزاد ہوئے آج 73 برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ انگریزوں کے ساتھ جنگ آزادی میں بہت سے مجاہدین آزادی نے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔ انہیں مجاہد آزدی میں سے ایک پہاڑی گاندھی بابا کانشی رام ہیں۔ آج پہاڑی گاندھی بابا کانشی رام کی 138 ویں یوم پیدائش ہے۔
بابا کی پیدائش 11 جولائی 1882 کو ہماچل پردیش کے ضلع کانگڑا کی پنچایت گرن باڈ میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام لکھنؤ رام تھا۔ بابا کانشی رام کی شادی سات سال کی عمر میں ہوگئی تھی۔ اس وقت ان کی بیوی کی عمر پانچ سال کی تھی۔ جب کانشی رام 11 سال کے تھے تب ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔
موسیقی اور ادب کے شوقین بابا کانشی رام کی ملاقات لاہور میں صوفی امبا پرساد اور لال چند فلک سے ہوئی، جنہوں نے مشہور محب وطن گیت 'پگڑی سنبھال جٹہ' لکھی ہے،جس کے بعد کانشی رام نے خود کو ملک کی آزادی کے لیے وقف کر دیا۔
سنہ 1905 میں کانگڑا گھاٹی زلزلہ سے بھاری تباہی ہوئی تھی۔ 7.8 کی شدت والے اس زلزلے میں 20 ہزار سے زائد لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ اس وقت لالہ لاجپت رائے کی کانگریس کارکنان کی ایک ٹیم لاہور سے کانگڑا پہنچی تھی، جس میں بابا کانشی رام بھی شامل تھے۔
کانشی رام نے گاؤں گاؤں جاکر زلزلہ سے متاثر لوگوں کی مدد کی۔ یہاں سے ان کی لاجپت رائے سے جان پہچان ہوئی اور وہ جنگ آزادی کی جدوجہد میں دل و جان سے لگ گئے۔ سنہ 1911 میں بابا کانشی رام دہلی دربار کے اس تقریب کو دیکھنے پہنچے جہاں راجا جارج پنجم کو بھارت کا بادشاہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کانشی رام نے برطانوی راج کے خلاف اپنی تحریر اور الفاظ کی طاقت سے ملک کو آزاد کرنے کی راہ پر نکل گئے۔
سنہ 1919 میں جب جالیاں والا باغ قتل عام کے وقت کانشی رام امرتسر میں موجود تھے۔یہاں برطانوی راج کے خلاف آواز بلند کرنے کی قسم کھانے والے کانشی رام کو 5 مئی 1920 کو لالہ لاجپت رائے کے ساتھ دو برس کے لیے دھرم شالہ جیل میں قیدی بناکر رکھا گیا۔اس دوران انہوں نے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں۔خاص بات یہ ہے تھی کہ ان کی ساری تحریریں پہاڑی زبان میں تھی۔
پہاڑی گاندھی بابا کانشی اپنی زندگی میں کل 11 بار چیل گئے اور اپنی زندگی کے 9 برس جیل میں گزارئے۔جیل کے دوران انہوں نے اپنی لکھنے کی صلاحیت کو جاری رکھا۔انہوں نے ایک ناول، 508 نظمیں اور 8 کہانیاں لکھیں۔
انا ضلع کے دولت پور میں ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا تھا۔اس جلسہ عام میں سروجنی نائیڈو نے بھی شرکت کی تھی۔یہاں کانشی رام کی نظمیں اور گیت سن کر سروجنی نائیڈو نے انہیں 'بلبل پہاڑ' کہہ کر بلایا تھا۔
کانشی رام خود کو ملک کے لیے وقف کردیا تھا۔تحریک آزادی سے ان کی وابستگی اس قدر گہری ہوگئی تھی کہ جب سال 1931 میں بھگت سنگھ، سکھدیو اور راج گرو کی سزائے موت کی خبر بابا کانشی رام کو ملی تب انہوں نے عزم لیا کہ وہ برطانوی راج کے خلاف اپنی آواز کو مزید بلند کرنے کی کوشش کی۔ساتھ ہی یہ بھی قسم کھائی کہ جب تک ملک آزاد نہیں ہوجاتا، تب تک وہ کالے کپڑے پہنیں گے۔اس کے لیے انہیں 'کالے کپڑوں والا جنرل' بھی کہا گیا۔
کانشی رام نے اپنی اس قسم کو آخری سانس تک نہیں توڑی۔15 اکتوبر 1943 کو اپنی آخری سانس لیتے ہوئے بھی کانشی رام کے بدن پر کالے کپڑے تھے اور کفن بھی کالے کپڑے کا ہی تھا۔
سال 1937 میں جواہر لعل نہرو ہوشیارپور کے گدی والا میں ایک اجلاس میں شرکت کرنے والے تھے۔ یہاں سے نہرو نے بابا کانشی رام کو 'پہاڑی گاندھی' کے نام سے خطاب کیا۔ اس کے بعد سے کانشی رام کو پہاڑی گاندھی کے نام سے ہی پہچانا جانے لگا۔
بابا کے اعزاز میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بابا کانشی رام پر 23 اپریل 1984 کو جوالمکھی میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود انہیں آج تک وہ مقام حاصل نہیں ہو پایا۔
چار سال قبل وزیراعلی ویر بھدر سنگھ نے بابا کانشی رام کے گھر کی تزئین و آرائش کا اعلان کیا تھا، لیکن ابھی تک ان کی یادگار کی تعمیر کا کام کاغذات تک ہی محدود ہے۔ سال 2007 میں محکمہ زبان و ثقافت نے بابا کانشی رام کے گاؤں کے پرانے مکان کے حصول کے لیے ان کے خاندان والوں سے بات کی تھی۔ حالانکہ ان کے نام پر ڈاڈا سیبا کے گورنمنٹ کالج اور سینئر سیکنڈری اسکول کا نام رکھا گیا ہے، لیکن ان کے آبائی گھر کو ابھی یادگار کے طور پر تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔
حالانکہ ایس ڈی ایم دیہرا دھنویر ٹھاکر کی سربراہی میں تشکیل کی گئی ٹیم نے 22 جون 2020 کو گرنباڑ ڈاڈا سیبا میں یادگار کی تعمیر کے لیے بابا کانشی رام کے گھر کی زمین کی نشاندہی کی ہے۔ اس سلسلے میں جب ایس ڈی ایم دھنویر ٹھاکر سے بات کی گئی تب انہوں نے بتایا کہ بابا کانشی رام کی یادگار کی تعمیر کے سلسلے میں معائنہ کرکے اس کی رپورٹ محکمہ زبان و ثقافت کو بھیج دی گئی ہے۔