ETV Bharat / bharat

طالبان اگر بنیادی حقوق کا احترام کرے تو امریکہ انہیں تسلیم کر لے گا: انٹونی بلنکن - طالبان عسکریت پسندی سے باز آئے

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ 'امریکہ افغانستان میں مستقبل کی حکومت کو تبھی تسلیم کرے گا جب طالبان اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کا احترام کریں گے اور عسکریت پسندی کو ملک سے دور رکھیں گے'۔

طالبان گر بنیادی حقوق کا احترام کریں تو امریکہ انہیں تسلیم کرلے گا
طالبان گر بنیادی حقوق کا احترام کریں تو امریکہ انہیں تسلیم کرلے گا
author img

By

Published : Aug 16, 2021, 10:51 PM IST

Updated : Aug 17, 2021, 7:55 AM IST

ایک رپورٹ کے مطابق چین کی جانب سے طالبان کو ایک جائز حکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہاکہ 'مستقبل کی افغان حکومت جو اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھے اور عسکریت پسندوں کو پناہ نہ دے، اس حکومت کے ساتھ ہم کام کر سکتے ہیں اور تسلیم کرسکتے ہیں'۔ مگر ایسی حکومت جو اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کو برقرار نہیں رکھے گی، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مذموم عزائم رکھنے والے عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دے گی ہم اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے'۔

اعلیٰ امریکی سفارت کار متعدد امریکی ٹیلی ویژن چینلز پر افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پر تبصرہ کرنے کے لیے پیش ہوئے جہاں طالبان نے کابل میں داخل ہو کر صدر اشرف غنی کو تجاکستان میں پناہ لینے پر مجبور کیا'۔ اس تعلق سے انہوں نے خبردار کیا کہ 'اگر وہ بنیادی حقوق کا احترام نہیں کرتے ہیں اور عسکریت پسندوں کو پناہ دینا بند نہیں کرتے ہیں تو کابل میں طالبان کی زیرقیادت حکومت کو بین الاقوامی امداد نہیں ملے گی'۔

جب انٹرویو لینے والے نے سوال کیا کہ ان کا بیان تسلیم نہ کرنے کی طرح لگتا ہے تو انٹونی بلنکن نے کہا کہ 'امریکہ سمیت عالمی برادری پر یہ لازم ہے کہ وہ معاشی، سفارتی، سیاسی، ہر وہ آلہ استعمال کرے جو ہمارے پاس ہے اور یقینی بنائیں کہ (وہ) حقوق برقرار رکھیں '۔انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ 'اگر طالبان ایسا نہیں کرتے ہیں تو، ان حقوق کو برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے انہیں واضح طور پر سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا'۔

سی این این کے جیک ٹیپر نے انٹونی بلنکن کو یاد دلایا کہ ایک حالیہ بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا تھا کہ کابل حکومت کا خاتمہ نہیں ہوگا اور ان سے سوال کیا کہ 'صدر اتنا غلط کیسے ہو سکتے ہیں '۔ وزیر نے دلیل دی کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے اہداف کو پورا کیا ہے، ان لوگوں سے نمٹا ہے جنہوں نے ہم پر 9/11 حملہ کیا، اسامہ بن لادن کا خاتمہ کیا اور القاعدہ کا خطرہ کم کیا اور اب وقت آگیا ہے کہ وہاں سے نکل جایا جائے۔

صحافی نے افغانستان میں سابق امریکی سفیر ریان کروکر کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکی فوجیوں کا انخلا افغانستان کو طالبان کے حوالے کرنا ہے، اور سوال کیا کہ 'کیا امریکی صر پر افغانستان سے اس تباہ کن انخلا کا الزام نہیں ہوگا'۔انٹونی بلنکن نے جواب دیا کہ 'ہم نے صدر سمیت سب سے کہا ہے کہ طالبان 2001 کے بعد سے اب تک کی اپنی سب سے بہترین پوزیشن پر ہیں'۔ یہ وہ طالبان ہیں جو ہمیں وراثت میں ملے ہیں اور اسی طرح ہم نے دیکھا کہ وہ جارحانہ انداز میں پیش قدمی کرنے اور ملک کو واپس لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں: چین

انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکہ نے جدید ترین فوجی سازوسامان، 3 لاکھ مضبوط افواج اور ایک فضائی قوت پر اربوں ڈالر خرچ کیے، جو کہ طالبان کے پاس نہیں تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ قوت ملک کا دفاع کرنے میں ناکام رہے'۔ وزیر نے اس تجویز کو بھی مسترد کردیا کہ امریکی سفارت خانے کے عملے اور دیگر امریکیوں کو نکالنے کے لیے امریکی فوجی بھیجنا ویت نام سے امریکی انخلا سے ملتا جلتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'یاد رکھیں، یہ سائگون نہیں ہے، ہم 20 سال پہلے ایک مشن کے ساتھ افغانستان گئے تھے اور وہ مشن ان لوگوں سے نمٹنا تھا جنہوں نے 9/11 حملہ کیا اور ہم اس مشن میں کامیاب ہو گئے ہیں '۔

یو این آئی

ایک رپورٹ کے مطابق چین کی جانب سے طالبان کو ایک جائز حکومت تسلیم کرنے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہاکہ 'مستقبل کی افغان حکومت جو اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھے اور عسکریت پسندوں کو پناہ نہ دے، اس حکومت کے ساتھ ہم کام کر سکتے ہیں اور تسلیم کرسکتے ہیں'۔ مگر ایسی حکومت جو اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کو برقرار نہیں رکھے گی، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مذموم عزائم رکھنے والے عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دے گی ہم اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے'۔

اعلیٰ امریکی سفارت کار متعدد امریکی ٹیلی ویژن چینلز پر افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پر تبصرہ کرنے کے لیے پیش ہوئے جہاں طالبان نے کابل میں داخل ہو کر صدر اشرف غنی کو تجاکستان میں پناہ لینے پر مجبور کیا'۔ اس تعلق سے انہوں نے خبردار کیا کہ 'اگر وہ بنیادی حقوق کا احترام نہیں کرتے ہیں اور عسکریت پسندوں کو پناہ دینا بند نہیں کرتے ہیں تو کابل میں طالبان کی زیرقیادت حکومت کو بین الاقوامی امداد نہیں ملے گی'۔

جب انٹرویو لینے والے نے سوال کیا کہ ان کا بیان تسلیم نہ کرنے کی طرح لگتا ہے تو انٹونی بلنکن نے کہا کہ 'امریکہ سمیت عالمی برادری پر یہ لازم ہے کہ وہ معاشی، سفارتی، سیاسی، ہر وہ آلہ استعمال کرے جو ہمارے پاس ہے اور یقینی بنائیں کہ (وہ) حقوق برقرار رکھیں '۔انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ 'اگر طالبان ایسا نہیں کرتے ہیں تو، ان حقوق کو برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے انہیں واضح طور پر سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا'۔

سی این این کے جیک ٹیپر نے انٹونی بلنکن کو یاد دلایا کہ ایک حالیہ بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا تھا کہ کابل حکومت کا خاتمہ نہیں ہوگا اور ان سے سوال کیا کہ 'صدر اتنا غلط کیسے ہو سکتے ہیں '۔ وزیر نے دلیل دی کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے اہداف کو پورا کیا ہے، ان لوگوں سے نمٹا ہے جنہوں نے ہم پر 9/11 حملہ کیا، اسامہ بن لادن کا خاتمہ کیا اور القاعدہ کا خطرہ کم کیا اور اب وقت آگیا ہے کہ وہاں سے نکل جایا جائے۔

صحافی نے افغانستان میں سابق امریکی سفیر ریان کروکر کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکی فوجیوں کا انخلا افغانستان کو طالبان کے حوالے کرنا ہے، اور سوال کیا کہ 'کیا امریکی صر پر افغانستان سے اس تباہ کن انخلا کا الزام نہیں ہوگا'۔انٹونی بلنکن نے جواب دیا کہ 'ہم نے صدر سمیت سب سے کہا ہے کہ طالبان 2001 کے بعد سے اب تک کی اپنی سب سے بہترین پوزیشن پر ہیں'۔ یہ وہ طالبان ہیں جو ہمیں وراثت میں ملے ہیں اور اسی طرح ہم نے دیکھا کہ وہ جارحانہ انداز میں پیش قدمی کرنے اور ملک کو واپس لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں: چین

انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکہ نے جدید ترین فوجی سازوسامان، 3 لاکھ مضبوط افواج اور ایک فضائی قوت پر اربوں ڈالر خرچ کیے، جو کہ طالبان کے پاس نہیں تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ قوت ملک کا دفاع کرنے میں ناکام رہے'۔ وزیر نے اس تجویز کو بھی مسترد کردیا کہ امریکی سفارت خانے کے عملے اور دیگر امریکیوں کو نکالنے کے لیے امریکی فوجی بھیجنا ویت نام سے امریکی انخلا سے ملتا جلتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'یاد رکھیں، یہ سائگون نہیں ہے، ہم 20 سال پہلے ایک مشن کے ساتھ افغانستان گئے تھے اور وہ مشن ان لوگوں سے نمٹنا تھا جنہوں نے 9/11 حملہ کیا اور ہم اس مشن میں کامیاب ہو گئے ہیں '۔

یو این آئی

Last Updated : Aug 17, 2021, 7:55 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.