علی گڑھ: معروف عالم دین مولانا سید رابع حسنی ندوی کا گزشتہ روز (21 رمضان المبارک) بعد نماز ظہر انتقال ہوگیا۔ مولانا کے انتقال سے علمی و ادبی حلقے میں سوگ کی لہر ہے۔ آپ گزشتہ 20 برسوں سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ مولانا کا شمار دنیا کے 500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات میں بھی ہوتا تھا۔ مولانا کے انتقال سے ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ آپ کے انتقال سے عالم اسلام سوگوار ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ دینیات کے پروفیسر سعود عالم قاسمی نے بھی مالانا کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا اور خصوصی گفتگو میں بتایا مولانا کا 94 سالہ سفر علم امانت، دیانت، قیادت اور خدمت خلق کی یادیں چھوڑ گیا، مولانا کو کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔
قاسمی نے بتایا کہ میری پہلی ملاقات مالانا سے 2002 میں ہوئی۔ مولانا نے جس صبر اور مضبوطی سے مشکلات کا سامنا کیا وہ بھی ایک مثال ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ پر بھی جو حملے ہوتے رہے۔ اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔ مولانا نے اس کا بھی سامنا کیا۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی جس طرح سے مولانا نے رہنمائی کی وہ بھی ہمارے سامنے ہے، مولانا کا کام ایک مثالی کام ہے۔
انہوں نے کہاکہ مولانا سید رابع حسنی ندوی نے دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء سے تعلیم حاصل کی تھی اور اس علم کو جس طرح انہوں نے پھیلایا وہ علماء اور دانشوروں کے لئے نمونہ ہے۔ مولانا کے انتقال سے عالم اسلام سو گوار ہے۔ ملت کی علمی، دینی، روحانی اور سماجی ترجمانی اور ان کی تربیت کرتے رہے۔ ایسے لوگ کم پیدا ہوتے ہیں۔
مولانا سید رابع حسنی ندوی کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے گہرا رشتہ رہا ہے، وہ اے ایم یو کورٹ کے ممبر بھی رہے ہیں اور کئی مرتبہ یونیورسٹی کے پروگراموں میں ان کو مدعو کیا گیا ہے۔ اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے مولانا کا اے ایم یو سے رشتہ سے متعلق بتایا مولانا کی شخصیت بڑی تھی معروف عالم دین تھے اس لئے وہ اے ایم یو کورٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیرت کے جلسوں میں بھی مولانا کو مدعو کیا جاتا تھا اور کیونکہ اے ایم یو نے اپنے دروازے دینی مدارس کے طلباء کے لئے کھولے ہوئے ہیں۔ اچھی تعداد میں طلباء دارالعلوم دیوبند سے اے ایم یو میں داخلہ لینے آتے ہیں اور ندوہ سے بھی آتے ہیں۔ علی گڑھ کے تعمیر ملت مدرسہ کی مسجد میں بھی بعد نماز جمعہ مولانا کی علمی اور دینی خدمات پر روشنی ڈالی گئی اور ان کے مغفرت کی دعا بھی کی گئی۔