اتر پردیش کے دارلحکومت لکھنؤ میں گزشتہ برس 19 دسمبر کو شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج ہوا، جو بعد میں پر تشدد ہو گیا تھا۔ احتجاج کے دوران کئی موٹر سائیکل، روڈ ویز بسز کو نظر آتش کر دیا گیا تھا۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بناتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اسکی تلافی انہیں مظاہرین سے وصول کیا جائے گا، جس کے بعد سے ہی ضلع انتظامیہ نے لکھنؤ کے کئی لوگوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔
شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس کو بھی 67 لاکھ روپے کی نوٹس جاری کی گئی تھی، جس کے خلاف مولانا سیف عباس نے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا، ہائی کورٹ نے انھیں بڑی راحت دیتے ہوئے ریاستی حکومت کے حکم پر روک لگا دی ہے۔
اس معاملے پر مولانا سیف عباس نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے ہے کہ 'ہمارا ملک آئین اور قانون سے چلتا ہے، معاملے کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ نے ریکوری پر روک لگا دی ہے۔ ہمیں ملک کی عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے، ہمیں عدالت سے پورا انصاف بھی ملے گا۔'
واضح ہو کہ لکھنؤ کے کئی سماجی کارکنان کو بھی لاکھوں روپے کی نوٹس جاری کی گئی ہے، جن میں رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب بھی شامل ہیں۔
رہائی منچ کے صدر نے بات چیت کے دوران بتایا کہ 'پولیس یا ضلع انتظامیہ کی کاروائی غیر قانونی ہے، موجودہ حکومت کی منشا نوٹس جاری کر کے ہمیں ڈرانے اور ہماری آواز خاموش کروانے کی ہے۔'