دھولکہ شہر میں واقع یہ عظیم الشان مسجد فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ دھولکہ کی الف خان کی مسجد کی تعمیر سلطان محمود بیگڑا کے بچپن کے دوست الف خان بھوکائی نے سن 1458 سے 1511 کے درمیان تعمیر کرایا تھا۔
اس مسجد کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سماجی کارکن مسعود خان نے کہا کہ الف خان بھوکائی نے اس مسجد کا تعمیراتی کام 1458 میں شروع کیا تھا اور 1511 میں الف خان مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔
اس مسجد میں کوئی ستون ہے۔ یہ پوری مسجد صرف اینٹوں سے بنی ہے۔
الف خان مسجد کافی وسیع و عریض ہے۔ مسجد کا اندرونی حصہ 150 فٹ لمبا ہے اور 42 فٹ چوڑا ہے۔
اس مسجد کے دونوں طرف ٹاور ہیں جو 120 فٹ اونچے ہیں۔ ان دونوں ٹاور کے درمیان لمبی کمانیں تھی جو 1819 میں آئے زلزلے میں منہدم ہو چکی ہیں۔ اس مسجد کے درمیان ایک ممبر بنا ہوا ہے جہاں سے امام صاحب اذان دیتے ہیں۔ فی الحال یہ مسجد ویران ہے اب یہاں صرف عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز ادا کا جاتی ہے۔
مسعود خان نے مزید کہا کہ الف خان کی مسجد دھولکہ شہر کے مضافات میں واقع ہے۔ مسجد سے متصل ایک تالاب ہے جسے خان تالاب کہا جاتا ہے۔ یہ اس تالاب کو نمازی بطور حوض استعمال کرتے تھے۔ مسجد کی تعمیرات چونے کی مدد کی گئی ہے اور اس کے پلاسٹر پر بڑی خوبصورتی سے نقاشی کی گئی ہے۔
وہیں، اس تاریخی الف خان مسجد کا معائنہ کرنے آئے محسن علی وارثی نے کہا کہ الف خان مسجد اپنے خوبصورت گنبد کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ اس زمانے میں دریا خان کا گنبد جو احمد آباد میں ہے اور دوسرا یہاں الف خان خان مسجد کا گنبد تھا جو صرف اور صرف اینٹوں سے بنائے گئے تھے۔
اس مسجد پر سفید رنگ پلاسٹر تھا۔ اس کے اوپر ایک پرت پلاسٹر کیا گیا تھا۔ اس کے بھی اوپر کالے رنگ کی خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔ جسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ سلک کے کپڑے پر کالی سیاہی سے خوبصورت ڈیزائن بنا دی گئی ہو۔
اتنی خوبصورت اور پرکشش ہونے کے باوجود الف خان کی مسجد ویران ہوتی جا رہی ہے۔ اس مسجد کے کچھ حصے تو پہلے ہی مہندم ہو چکے تھے اور کچھ حصے تو 2 ماہ قبل آئے توکتے طوفان کے دوران گر گئے۔ لیکن اب تک محکمہ آثار قدیمہ کی نگاہیں اس پر نہیں پڑی ہیں۔
اس تعلق سے سماجی کارکن مسعود خان نے کہا کہ میں اس مسجد کے چاروں طرف محکمہ آثار قدیمہ نے کمپاؤنڈ وال بنا دیا ہے لیکن کمپاؤنڈ وال کی دیکھ ریکھ صحیح طریقے سے نہیں ہو رہی ہے۔
حال ہی میں توکتےطوفان سے بھی مسجد کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا ہے جس سے مسجد کے ایک ٹاور کے منہدم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اس تعلق سے دھولکہ کے سماجی کارکنان نے محکمہ آثار قدیمہ کے افسران سے ملاقات کی تھی اور انہیں عرضی بھی پیش کی تھی۔ لیکن اب تک کسی طرح کی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے الف خان مسجد کھنڈر بنتی جا رہی ہے۔ اس تاریخی وراثت کو بچانے کے لیے متعلقہ محکموں اور اداروں کو فوری طور پر مرمت اور بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں:
گیا: لودھی مسجد خستہ حالی کا شکار
الف خان کی مسجد فن تعمیر کا ایک نادر و دلکش نمونہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس تاریخی ورثہ کو زندہ رکھنے کے لیے آثارِ قدیمہ کب پہل کرتا ہے۔