دہلی ہائی کورٹ کے وکیل مسرور صدیقی نے ای ٹی بھارت سے یکساں سول کوڈ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ لا کمیشن آف انڈیا پہلے ہی یہ بات کہہ چکا ہے کہ بھارت میں فی الحال یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت یکساں سول کوڈ کی بات کرنا میری سمجھ سے باہر ہے، فی الحال ملک میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہے لیکن اس کے باوجود یکساں سول کوڈ سرخیوں میں ہے۔ مسرور صدیقی نے کہا کہ یہ صرف اور صرف اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ووٹ بینک کی سیاست کرنا ہے۔
یکساں سول کوڈ نافذ ہونے سے مسلمان ہی کیوں اعتراض کرتے ہیں اس سوال کے جواب میں مسرور صدیقی نے کہا کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہے، ایسے میں انہیں یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر یکساں سول کوڈ نافذ ہوگیا تو ان کی مذہبی آزادی کو خطرہ ہے البتہ اس سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں:۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے عدالت میں عرضی
واضح رہے کہ بھارتی آئین میں یکساں سول کوڈ لانے کی بات کہی گئی ہے جس کے تحت، شادی بیاہ، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے عائلی قوانین کو بلا تفریق مذہب و ملت یکساں بنانا ہے۔
تاہم مسلمان اسے شریعت میں مداخلت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ لانے کی کوشش سے ملک میں خلفشار پیدا ہو گا اور وہ متحد ہو کر حکومت کے فیصلے کی مخالفت کریں گی۔ ان کا موقف ہے کہ دستور ہند میں سب کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔
حال ہی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کانپور میں یونیفارم سول کوڈ کا ذکر کر کے اسے ایک بار پھر موضوع بحث بنا دیا ہے، حالانکہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ کافی وقت سے ٹھنڈے بستے میں پڑا ہوا تھا۔