اس جدید دور میں کنویں سے پانی پینے کی بات نا قابل یقین سی لگتی ہے لیکن ہم آپ کو بتا دیں کہ بنارس کی 60 فیصد مسجدوں میں آج بھی کنویں موجود ہیں جہاں سے نہ صرف وضو اور غسل کے لیے پانی استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کہ قرب و جوار کے عوام بھی ان کنویں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔
بنارس کے للا پورہ علوی پورہ کچی باغ، دوسی پورہ و دیگر علاقے میں بیشتر مسجدوں میں کنواں موجود ہے جسے استعمال کیا جارہا ہے۔
علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کے گھروں میں جب تکنیکی خرابی واقع ہوتی ہیں یا لائٹ چلی جاتی ہے تو علاقے کے بیشتر لوگ مسجد کے کنویں کا پانی اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔
محمد سلیم بتاتے ہیں کہ کنواں کا پانی نہ صرف ضروریات پورا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ کہ یہ پانی صاف و شفاف ہوتا ہے جسے لوگ پانی پینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
بنارس کے للا پورہ کے رہنے والے ادریس انصاری بتاتے ہیں وارانسی کی ساٹھ فیصد مسجدوں میں آج بھی کنویں موجود ہیں۔ اس سے غریب، مزدور اور مسجد کے نمازی پانی کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قدیم زمانے سے ہی مسجدوں میں کنویں موجود ہیں۔ مساجد کی انتظامیہ نے ان کی حفاظت بہت ہی ذمہ داری کے ساتھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بنارس کے بیشتر مسجدوں میں کنواں مل جائے گا۔ کچھ علاقوں میں عوام کا انحصار کنواں کے پانی پر ہوتا ہے اور وہاں کے عوام بھی مسجد کے کنویں سے پانی استعمال کرتے ہیں۔
یوں تو بنارس کی بیشتر گلیوں میں کنواں موجود ہیں لیکن زیادہ تر کنویں یا تو پٹ چکے ہیں یا ان کا پانی خراب ہو چکا ہے لیکن مساجد میں جو کنویں موجود ہیں ان کا پانی آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہم آپ کو بتا دیں کہ زمین میں جگہ جگہ پر بورویل سے نہ صرف زمین کی صحت خراب ہوئی رہی ہے بلکہ پانی کا بھی کثیر مقدار میں ضیاع ہورہا ہے۔ کنواں کا وجود نہ صرف پانی کے تحفظ میں اہم مانا جاتا ہے بلکہ کہ زمین کی صحت کے لیے بھی بہتر ہے۔ لیکن جدید تکنیک اور آلات کی ایجاد نے کنواں کی وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔