واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس ابن علیؓ کی عمر تقریباً 33 سال تھی۔ امام حسینؓ نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قرار دیا تھا۔ امام حسینؓ کے ساتھیوں کی تعداد 72 افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ تھی مگر حضرت عباس ابن علیؓ کی ہیبت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی۔ کربلا میں کئی ایسے مواقع آئے جب عباسؓ جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔
کربلا کے میدان میں جب اہل بیت پر پانی بند کردیا گیا تھا ایسی حالت میں حضرت عباسؓ ہی تھے جو نہرِ فرات تک پہنچے تھے لیکن پیاس کی شدت کے باوجود انہوں نے پانی کا قطرہ بھی اپنے لبوں سے نہیں لگایا، کیونکہ میدان کربلا میں امام حسینؓ کے خیموں میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو کئی روز کے پیاسے تھے۔ عباس نے خیموں میں پانی لے جانا چاہا لیکن یزیدی لشکر نے انہیں روک لیا، عباس نے اپنی بازو جدا ہونے کے باوجود بھی علم کو بلند رکھا۔
علمبردار کربلا کی عظیم قربانی کی یاد میں آج بھی محرم الحرام کے مہینہ میں عباسؓ کے علم کو بلند کیا جاتا ہے، آج لوگ اپنے گھروں میں عباسؓ کا علم سجاتے ہیں اور حضرت عباسؓ کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔ کشمیر میں علم کو مختلف انداز میں سجایا جاتا ہے، عزادارن امام حسین اس علم کو حضرت عباسؓ کی قربانیوں کو یاد کرکے سجاتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ حضرت عباسؓ حضرت علی کے ایک ایسے بہادر بیٹا تھے جن کی تربیت خود حضرت علی نے کی تھی، آپ کی بہادری کے چرچے پورے عرب و عجم میں مشہور تھے۔ کربلا کا میدان میں حضرت عباسؓ جب بھی نکلے تو یزیدی لشکر تھرا اٹھتا تھا۔
میر انیس نے علمبردار حضرت عباس کی شجاعت و بہادری کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے کہ۔
'وہ اوج وہ جلال وہ اقبال وہ حشم
وہ نور وہ شکوہ وہ توقیر وہ کرم
پنجے کی وہ چمک وہ سر افرازیِ علم
گرتی تھی برق فوجِ مخالف پہ دم بہ دم'
لیکن حضرت عباسؓ کو ایک ایسے موقع پر شہید کیا گیا جب وہ نہر فرات سے مشکیزہ لے کر خیموں کی جانب رواں دواں تھے۔ کیونکہ اس وقت حضرت عباسؓ کا مقصد صرف یہ تھا کہ خیموں تک پانی پہنچے۔ لیکن حضرت عباس کے دونوں بازو جدا کیے گئے جس کے بعد انہوں نے مشکیزہ کو اپنے دانتوں سے اٹھایا لیکن یزیدی لشکر نے مشکیزہ کو ہی توڑ دیا اور مشکیزہ سے پانی گرتے ہی عباسؓ بھی ٹوٹ گئے۔ آج بھی عالم اسلام عباسؓ کی وفاداری اور شجاعت کو یاد کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: کشمیری زبان میں مرثیہ خوانی کی روایت پر ایک نظر
آپ کو بتادیں علمبردار حسین حضرت عباس حضرت علیؓ کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا جن کا تعلق عرب کے ایک بہادر قبیلے سے تھا۔ حضرت عباسؓ اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔