ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کی تنظیم 'بزم شاہد اختر' کے پروگرام میں دانشوروں نے ریاست میں اردو اسکولوں کی کم ہوتی تعداد پر افسوس کا اظہار کیا اور حکومت سے اسکولز اور کالجز میں دوسری زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے اساتذہ کی تقرری کا بھی مطالبہ کیا۔
اردو بھارت کی ہی نہیں دنیا کی ایک زندہ اور توانا زبان ہے۔ برصغیر سے باہر بھی اردو رابطہ کی ایک بڑی زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ اردو میں ترقی کے تمام امکانات موجود ہیں، بس اسے ٹیکنالوجی سے مزید ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار بھوپال کی اقبال لائبریری میں تنظیم شاہد اختر کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں اردو دانشوروں نے کیا۔
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش میں اردو کی صورتحال اور حکومت کی عدم توجہی کو لے کر بزم شاہد اختر کے ذریعہ ریاست گیر سطح پر تحریک شروع کی گئی ہے۔ بزم کا مقصد ریاست کے اسکولز میں اردو اساتذہ کی کمی اور حکومت کے اقدام کا صحیح طور پر اندازہ لگانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بزم شاہد اختر کے زیر اہتمام اکیسویں صدی میں اردو کے مسائل اور ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔
تنظیم کے صدر پرویز اختر نے کہا کہ ہمارا مقصد اردو کی صحیح صورتحال کو سامنے لانا ہے تاکہ اس کی روشنی میں اردو کے فروغ کے لیے قدم کئے جا سکیں اور حکومت سے بھی ریاست گیر سطح پر اردو کے فروغ میں اردو اساتذہ کی تقرری کا مطالبہ کیا جا سکے۔
مزید پڑھیں:۔ بھوپال: اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام قومی سیمینار کا انعقاد
پروگرام کے مہمان خصوصی بنارس ہندو یونیورسٹی شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر یعقوب یاور نے کہا کہ اردو سے متعلق ہمیں اپنا نظریہ بدلنا چاہئے۔ اردو ایک زندہ زبان ہے اور اس میں ترقی کے بہت امکانات ہیں لیکن اس کے لیے اردو والوں کو بھی اپنا نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردو کے نئے قاری پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور جس دن ہم اردو کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اردو کے نئے قاری پیدا کرنے کی سمت میں اپنی توجہ کریں گے تو اردو کا منظر نامہ بدل جائے گا۔
پروگرام کے صدر ممتاز ادیب دیوی سرن نے کہا کہ ہم نے ریاست کا دور بھی دیکھا اور آج کا دور بھی دیکھ رہے ہیںاور بہت اچھا تھا جب ہمیں اپنی پسند سے اردو اور فارسی کے ساتھ روسی زبان سیکھنے کا حق حاصل تھا۔ ہم نے جب پہلی کلاس ریاستی عہد میں 'رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی' کہانی پڑھی تب ہمارے دل نے کہا تھا کہ ہم نے صحیح زبان کا انتخاب کیا ہے لیکن آج گائے کے نام پر نہ جانے کیا کیا ہو رہا ہے جس پر افسوس ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اردو والوں کے ساتھ حکومت کی سرپرستی حاصل ہو جائے تو اردو کا کاروبار چل پڑے گا۔