ہریداور کے کنکھل میں 15 فروری 1882 کو پیدا ہوئے بدری دت پانڈے کو اتراکھنڈ میں برسوں سے رائج 'قلی بیگار نظام' کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس نظام کے خلاف ان کے ذریعہ شروع کی گئی شاندار تحریک کی تعریف خود مہاتما گاندھی نے کی۔
بدری دت پانڈے کے خاندان کا تعلق اصل میں الموڑہ کے پاٹیا سے تھا۔اپنے والدین کی موت کے بعد بدری دت الموڑہ واپس آگئے اور اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اعلی تعلیم کے لیے الہ آباد چلے گئے۔ لیکن اپنے چچا کی بے وقت موت کی وجہ سے انہیں اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی، کیونکہ ان کے چچا ہی ان کے تعلیم کے اخراجات اٹھا رہے تھے۔
اسکول میں تعلیم کے دوران ہی بدری کو سرکاری ملازمت حاصل ہوگئی تھی اور یہی وہ وقت تھا جب انہیں انگریز حکومت کے ظلم و جبر کا اندازہ ہوا۔ دفتر میں برطانوی لوگوں کے ذریعہ بھارتیوں کے ساتھ کیے جارہے امیتازی سلوک کو دیکھ کر وہ اتنے افسردہ اور مایوس ہوگئے کہ انہوں نے ملازمت چھوڑ کر تحریک آزاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے صحافت کو اپنا کیرئیر بنایا۔
ابتدائی طور پر انہوں نے لیڈر پریس کے ساتھ کام کیا اور بعد میں دہرادون سے شائع ہونے والی کاسموپولیٹن میں ملازمت اختیار کی۔ سنہ 1913 میں بدری دت پانڈے الموڑہ اخبار کے سب ایڈیٹر بنے۔ ان کی صحافتی صلاحیتوں سے اخبار کو بہت فائدہ پہنچا۔ بدری دت پانڈنے کے مضامین کی وجہ سے اخبار کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا اور ان کی شمولیت کے محض تین ماہ کے اندر اخبار کی سرکولیشن 60 سے بڑھ کر 1500 ہوگئی۔
مزید پڑھیں:مقبول شیروانی: پاکستان حملہ آوروں کے خلاف بھارتی فوج کے مددگار
برطانوی حکام پر ان کے طنزیہ مضامین نے اس دور میں کافی ہلچل پیدا کی تھی۔ ایک دن ڈپٹی کمشر نے ایک نوکر پر صرف اس لیے گولی چلا دی کیونکہ اس نے شراب کے لیے سوڈا لانے میں دیری کی تھی، دت نے اس واقعہ کو اپنی مضمون کا موضوع بنایا اور اس پر خوب لکھا۔ جس کے بعد ڈپٹی اہلکار نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پرندوں کا شکار کرنے کے دوران نوکر غلطی سے اس کراس فائر کے سامنے آگیا۔ لیکن پانڈے کہاں اس وضاحت کو سننے کے بعد خاموش ہونے والے تھے، انہوں نے ایک اور مضمون شائع کرتے ہوئے لکھا کہ یہ شکار کا موسم نہیں تھا اور قانون کا محفاظ شکار پر بنے قانون کو کیسے توڑ سکتا ہے۔
برطانوی انتظامیہ اس آرٹیکل کو برداشت نہیں کر پائی اور بالآخر انہوں نے اخبار کو بند کروا دیا۔ جس پر پانڈے نے ایک اور اخبار میں کچھ اس طرح لکھا ' ایک تیر سے تین نشانہ۔نوکر، پرندہ اور اخبار'۔
سنہ 1918 میں وجے دشمی کے دن بدری دت پانڈے نے ایک نئے اخبار 'شکتی' کی شروعات کی۔ وہ سنہ 1913 سے 1926 تک شکتی کے ایڈیٹر کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس دوران انہوں نے کئی مضامین لکھے اور انگریزوں کی تنقید کرتے ہوئے کئی رشوت خور سرکاری افسروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ جس سے شکتی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔
سنہ 1921 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا تھا کہ رائے بہادر کی فصلیں ہر سال لہلہاتی ہوئی نظر آتی ہیں جبکہ غریب کسانوں کی گندم اور دھان کی فصلیں پانی کے بغیر مرجھا جاتی ہیں۔ اس قسم کے مضامین نے بیوروکریٹس کو بے چین کردیا۔ سنہ 1926 میں بدری دت پانڈے کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اگرچہ اس کے بعد انہوں نے اخبار چھوڑ دیا، لیکن یہ اخبار آج بھی الموڑہ سے 100 سال سے زیادہ عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔
بدری نے جہاں انقلابی مضامین لکھ کر برطانوی حکومت کی نیند اڑا دی تھی وہیں وہ پہاڑوں میں 'قلی بیگار نظام' کا رواج ختم کر بھارتی تاریخ کی صفحات پر امر ہوگئے۔ اتراکھنڈ میں بیگار کا رواج زمانہ قدیم سے لوگوں کا استحصال کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ اس رواج کے تحت انگریز افسر یہاں کے لوگوں کو بغیر اجرت کے مفت میں قلیوں کا کام کرواتے تھے۔
بدری دت پانڈے نے کماؤں میں اس رواج کے خلاف تحریک شروع کی۔ سنہ 1918 میں کماؤن کونسل کے پہلے اجلاس میں ' قلی بیگار سسٹم' کے خلاف ایک قرار داد منظور کی گئی۔ 10 جنوری 1921 کو بدری دت پانڈے، ہرگوبند پنت، چرنجیوی لال سمیت 50 افراد کے ساتھ اس رواج کے خلاف لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے باگیشور میلے کا سفر طئے کیا۔
باگیشور پہنچنے کے بعد انہوں نے ایک بنیر بنا کر اس میں 'قلی بیگار کو بند کرو' کا نعرہ لکھا اور اس بینر کو میلے میں موجود تمام دکانوں اور خیموں تک پہنچایا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہوگیا۔ 12 جنوری 1921 کی رات کو 50 ہزار لوگ اس تحریک کی حمایت میں جمع ہوئے۔ اس مجمع کو روکنے کے لیے وہاں اس وقت ڈپٹی کمشنر بھی اپنے 50 پولیس اہلکار کے ساتھ موجود تھے، وہ تحریک کو روکنے کے لیے لوگوں پر گولیاں تو چلانا چاہتے تھے، لیکن اتنے بڑے ہجوم کو دیکھ کر وہ یہ ہمت نہیں کرپائے۔
اس واقعہ کے بعد ڈپٹی کمشنر نے بدری دت پانڈے کو طلب کیا اور انہیں تنبیہہ کی کہ انہیں اس کے سنگین تنائج بھگتنے پڑسکتے ہیں، لیکن بدری دت نہ جھکے اور نہ رکے۔ گاؤں کے سربراہوں کے رجسٹر میں قلیوں کا اندراج کیا جاتا تھا، لیکن ایک دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ اکٹھا ہوئے اور قلی بیگار رواج کو نہ ماننے کا حلف اٹھاتے ہوئے دریائے سریو میں اس رجسٹر کو بہا دیا۔
لوگوں نے بدری دت پانڈے کو دو گولڈ میڈل سے نوازا اور انہوں نے اس گولڈ میڈیل کو سنہ 1962 میں چین کے خلاف ہوئی جنگ کے لیے دفاعی فنڈ میں عطیہ کردیا۔ قلی بیگار رواج کو ختم کرنے پر انہیں کماؤں کیسری کا خطاب دیا گیا۔ مہاتما گاندھی نے اس تحریک کو 'بلاخون ریزی انقلاب' قرار دیا۔
اس کے علاوہ بدری دت پانڈے نے سنہ 1938 سے سنہ 1945 کے درمیان نائک طبقہ کے خلاف ہورہے ظلم و بددیانتی کا بھی خاتمہ کیا۔ نائک نظام کے تحت نائک ذات کے لوگوں کو زمین خریدنے یا زمین پر کوئی حق نہیں ہوتا تھا۔ اس طبقہ کے لوگ اپنی عورتوں کو جسم فروشی پر مجبور کرکے روزی روٹی کماتے تھے۔ لیکن بدری دت پانڈے نے اپنی کوششوں کے ذریعہ اس برائی کا بھی خاتمہ کیا۔
سنہ 1929 میں جب گاندھی جی الموڑہ تشریف لائے، تب ایک اجلاس کے دوران بدری دت پانڈے گاندھی جی کی آواز بن گئے۔ گاندھی جی نے میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہ وہ تھکے ہوئے ہیں اور اونچی آواز میں بات نہیں کرسکتے ، لہذا وہ لوگوں سے ان کی بات کو اطمینان سے سننے کی اپیل کرتے ہیں۔ جس پر بدری دت پانڈے نے گاندھی جی سے کہا کہ وہ اپنا پیغام دھیمی آواز میں کہیں اور وہ اس پیغام کو ہجوم کے سامنے بلند اور تیز آواز میں کہہ کر دور بیٹھے لوگوں تک پہنچائیں گے۔ پھر کیا تھا میٹنگ میں بدری دت پانڈے گاندھی جی کی ہر بات کو دہراتے ہوئے اسے اونچی آواز میں کہتے گئے۔
بدری دت پانڈے نے جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی، انہیں اس کی وجہ سے چار بار جیل بھیجا گیا۔ وہ دسمبر 1921 سے نومبر 1922 تک، جون 1929 سے مارچ 1931 تک، جنوری 1932 سے اگست 1932 تک اور جنوری 1942 سے 9 اگست 1943 تک جیل میں رہے۔جب وہ سنہ 1932 میں جیل میں تھے، تب ان کے بیٹے تارک ناتھ اور اور بیٹی جینتی کا انتقال ہوگیا۔ اس دوران انہوں نے جیل میں کماؤن کی تاریخ لکھی، جو آج بھی اتراکھنڈ کی تاریخ سے متعلق لوگوں کی پسندیدہ کتاب سمجھی جاتی ہے۔ یہ عظیم مجاہد آزادی 13 فروری 1965 کو دنیا کو الوداع کہہ گئے۔