غالب ہماری اردو شاعری کا سب سے عظیم اور سب سے خوبصورت نام ہے، جس نے ایسی شاعری اور ایسا نثر اردو دنیا کو دیا، جس کے لوگ آج بھی دلدادہ ہیں۔
غالب نے اگرچہ فارسی میں بھی شاعری کی تھی تاہم دنیا کے سامنے ان کا اردو کا کلام متعارف ہوا اور وہ بطور اردو شاعر پوری دنیا میں جانے اور پہچانے گئے۔
مرزا نوشہ کے نام سے مشہور اردو کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے اردو کو جتنی وسعت دی، اسے عام لوگوں میں خاص بنایا، اسے غزل اور اپنے مکتوبات کے ذریعہ اتنی ہمہ گیریت بخشی کی آج بھی ان کا اس اسلوب میں کوئی ثانی نہیں ہے۔
گذشتہ تین صدیوں نے ہمیں تین بڑے شعرا سے متعارف کروایا ہے۔ اٹھارہویں صدی نے میرتقی میرؔ دیا تو انیسویں صدی میں ہم غالبؔ سے واقف ہوئے، وہیں بیسوی صدی کی ابتدا میں ہم فکری اور الہامی شاعری کرنے والے علامہ اقبالؒ سے آشنا ہوئے۔
آج مرزا اسداللہ خاں غالب کی 152 ویں برسی ہے۔ اس موقع پر اہل زبان انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں اور ان کی حیات و خدمات پر سیمینار اور اردو مجالس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
مرزا اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔
محض 13 برس کی عمر میں آپ کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی، غالب کی کئی اولادیں ہوئیں لیکن وہ زندہ نہیں رہ پائیں۔ ان سانحوں کا غالب کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا اور اس کا رنگ شاعری میں بھی نمایاں رہا۔
مزید پڑھیں:مرزا غالب کے یوم پیدائش پر خاص پیشکش
دہلی میں پرورش و پرداخت پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ غالب کی شاعری کا انداز منفرد تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور یہ الزام عائد کیا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔ لیکن بعد میں غالب نے یہ ثابت کردیا کہ وہ وسیع النظر، وسیع القلب، بلندی خیالات میں یکتا، اعلی تخیل اور بلند پرواز کے حامل شاعر ہیں۔
مرزا اسد اللہ خان غالب نے دیوان کے ڈھیر لگانے کے بجائے بہترین شاعری کے حامل چند ہزار اشعار کہے ہیں۔ ان کے خطوط کو بھی اردو ادب میں خاص درجہ حاصل ہے۔
غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبت، رقابت، آفاق و انفس، رمز و اشارے، جنون وجدت طرازی، روز مرہ کے کرب و مسائل، نفسیات، فلسفہ، کائناتی اسلوب سمیت متعدد موضوعات پر انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔
یہ شعر دیکھئے کہ کس طرح سادہ انداز میں غالب کائنات پر غوروفکر کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
سبزہ و گُل کہاں سے آئے
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
مرزا غالب نے اپنے اس انداز سے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے وہ فکری اور فلسفیانہ خیالات کو اس عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار لفظوں میں ڈھال دیتے تھے۔
نثر کے میدان میں غالب نے کوئی الگ فن پارہ تخلیق نہیں کیا لیکن انہوں نے جس منفرد انداز سے خطوط نگاری کی، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ اور یوں 'غالب کے خطوط' اپنے لب و لہجے، اندازِ بیان، لفظوں کے انتخاب اور نثر میں شاعرانہ انداز کی صفات کے ساتھ وہ شاندار شاہکار سرمایہ ثابت ہوئے جسے ان کے انتقال کے بعد یکجا کیا گیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ آج بھی لازوال فن پارہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کے کچھ منتخب اشعار قارئین کے لیے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
ہر اک بات پہ کہتے ہو تم، کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
غالب کی شاعری اور نثر نے اردو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے اور انہوں نے فارسی اسلوب کے علاوہ سنجیدہ اور سلیس زبان میں بھی بامعنی اور انتہائی گہرائی و گیرائی والے اشعار پیش کیے۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب ان کے سینکڑوں اشعار سے بھرا پڑا ہے۔
غالب زندگی بھر تنگ دستی اور غربت کے شکار رہے۔ جس کا انہوں نے جابجا ذکر بھی کیا ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہمارے فاقہ مستی ایک دن
ایک طرف انگریز سرکار کی جانب سے انہیں اپنی ہی جائیداد میں حصہ نہ مل سکا تو دوسری جانب کفایت شعاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ زندگی بھر تہی دست رہے۔ عمر کے آخری دنوں میں ان کی رسائی مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے محل میں ہوئی اور انہیں نجم الدولہ اور دبیرالملک کے خطاب سے نوازا گیا، خلعت دی گئی اور معاوضہ بھی مقرر کیا گیا۔
اس کے بعد جنگِ آزادی کے سلسلے میں گلی گلی جنگ چھڑگئی اور دہلی کو تاراج کیا گیا۔ بے شمار لوگوں کو انگریزوں نے سرِ عام پھانسی دی جس نے مرزا غالب کی نفسیات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا یہاں تک کہ خود مغلیہ سلطنت بے عمل ہوکر رہ گئی تھی اور اس کے بعد پورا بھارت انگریزوں کے قبضے میں چلاگیا۔
فسادات، شورش اور غارت گری کے سارے واقعات خود مرزا غالب نے آپنی آنکھوں سے دیکھے اور شدید افسردہ اور غمگین رہے۔ 15 فروری 1869ء میں مرزا غالب اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔
ہوئی مدت کہ 'غالب' مَر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا