عالیہ یونیورسٹی کے قیام کا خیال اس وقت کے بایاں محاذ کی حکومت کو آیا جب سنہ 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد بایاں محاذ سے ریاست کے مسلمان سخت نالاں تھے۔ مسلمانوں کی ناراضگی کا ازالہ کرنے کے لیے سنہ 1780 میں بنگال کے گورنر وارین ہیسٹنگ کی قائم کردہ عالیہ مدرسہ (کلکتہ محمڈن کالج یا کلکتہ مدرسہ) کو بایاں محاذ حکومت نے یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور سنہ 2008 میں عالیہ مدرسہ عالیہ یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔ عالیہ مدرسہ کو ایشیا کی سب سے قدیم جدید طرز تعلیمی ادارہ ہونے کا بھی صرف حاصل ہے۔ وارین ہیشٹنگ نے اسے کلکتہ محمڈن کالج کا نام دیا تھا جو بعد میں تبدیل ہوتے رہے۔
بایاں محاذ کے دور میں یونیورسٹی کے لیے چار کیمپس کا انتخاب کیا گیا۔ لیکن صرف تین کیمپس ہی موجود ہیں۔ تالتلہ، پارک سرکس اور نیوٹاؤن۔ یونیورسٹی فی الحال ریاستی حکومت کے وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے ماتحت ہے۔ یونیورسٹی گذستہ دو برسوں سے انتظامی و مالی بدحالی کس شکار ہے۔ کئی ماہ سے مختلف شعبے میں خدمات انجام دینے والے مختلف وینڈروں کے بقایاجات ادا نہیں کیے جا رہے ہیں۔ کیونکہ یونیورسٹی کے پاس فنڈ نہیں ہے۔ کئی ماہ سے گیسٹ فیکلٹی اور سیکورٹی گارڈ عملہ کو تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ ایک برس قبل جب امفان طوفان آیا تھا جس میں پارک سرکس کیمپس کو شدید طور پر نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت سے یونیورسٹی میں انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہو ہے جو اب تک بحال نہیں ہوا ہے۔ یونیورسٹی کو فنڈ کی کمی کی وجہ سے مختلف شعبوں میں آنے والے بین الاقوامی رسائل و جرائد بند ہیں۔
یونیورسٹی کو فنڈ کے بحران کا سامنا کیوں ہیں؟ ممتا بنرجی جب ریاست میں تیسری بار اقتدار میں آئی تو انہوں نے عالیہ یونیورسٹی کے لیے 125 کروڑ کے فنڈ دینے کا اعلان کیا اور میڈیا میں اس کی خوب چرچا بھی ہوئی۔ مگر مالی برس 2021-22 کا سہ ماہی گزر جانے کے بعد بھی پہلے شہ ماہی کا 30 کروڑ ابھی تک نہیں ملا ہے۔ 2020-21 مالی برس میں یونیورسٹی کو صرف 10 کروڑ ہی ملے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں کوئی تعمیری کام نہیں ہوا ہے۔'
یونیورسٹی میں جاری بحران پر یونیورسٹی کے ٹیچروں کی جانب سے ریاستی وزیر اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کو ایک کھلا خط لکھا گیا ہے۔ عالیہ یونیورسٹی میں گذشتہ کئی برسوں مختلف طرح کی بدعنوانیوں کا معاملہ بجہ سامنے آنے پر وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم نے اس سلسلے میں جانچ کمیٹی بنائی ہے۔ لیکن یونیورسٹی کے ٹیچروں کی جانب سے اس جانچ کمیٹی پر سوال اٹھائے گئے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی کے ٹیچرز کیمرے پر بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر یونیورسٹی کے ایک شعبہ کے صدر نے بتایا تھا کہ یونیورسٹی میں گذشتہ کئی برسوں سے تعمیری کام نہیں ہوا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ کو مزید بہتر بنانے کی کوشش نہیں کیا جا رہی ہے۔ اساتذہ کی تقرری باضابطگی کی گئی ہے۔ کئی معاملے عدالت میں ہیں دوسری جانب محکمہ اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم افسران اور یونیورسٹیوں انتظامیہ کا بھی آپس میں مفادات کا ٹکراؤ ہے اور اس پورے معاملے کو اردو بمقابلہ بنگلہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔'
ریاست کے مسلمانوں کے مسائل پرکام کرنے والی تنطیم بنگالی اکاڈمیہ آف سوشل امپاورمنٹ کے رکن نے اس مسئلے پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سنہ 2011 تک عالیہ یونیورسٹی نے ترقی کی، لیکن سنہ 2011 کے بعد سے لگاتار یونیورسٹی تنزلی کا شکار ہے۔ یہاں مالی بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ ہم نے اپنی تنظیم کی جانب سے چھ ماہ قبل یونیورسٹی کے مسائل کے حل کرنے کے لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک یادداشت بھی دی تھی، لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی میں مالی و انتظامی بدعنوانی شباب پر رہی اور حکومت کی جانب سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے بلکہ حکومت کے متعلقہ محکمہ کے لوگوں کا ہی اس میں اہم رول رہا ہے۔ حالات اب اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ گروپ ڈی اور جزوی وقتی عملہ کی تنخواہیں بھی کئی ماہ سے ادا نہیں کی گئی ہیں۔ پارکس سرکس کیمپس کا بجلی کا لاکھوں کا بقایا ہے جس کے نتیجے میں سی ایس سی ای کمپنی نے یونیورسٹی کو نوٹس بھی بھیجا ہے۔ مالی بدعنوانیوں کی وجہ سے حالات بے حد خراب ہو چکے ہیں۔'
ان سب کے درمیان محکمہ اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم نے یونیورسٹی میں جاری بے ضابطگیوں کے خلاف جانچ کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جو پورے معاملہ کی تحقیقات کرے گی۔ اس جانچ کمیٹی پر یونیورسٹی انتظامیہ اور ٹیچرز کی جانب سے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ جانچ کمیٹی میں موجودہ وی سی یا کسی سینئیر پروفیسر کو نہیں رکھا گیا ہے۔ یونیورسٹی نے کوئی شکایت تحریری طور پو یونیورسٹی کو نہیں دی ہے بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ سنہ 2014 سے 2021 تک کے کاغذات و دستاویزات انہیں فراہم کیے جائیں۔ ٹیچرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایم اے ایم ای ڈپارٹمنٹ نے سنہ 2020-2021 سے یونیورسٹی کے تعمیری اور علمی ترقی کے لئے کوئی فنڈ نہیں دیا ہے۔'
بنگال کے مسلم اداروں پر گہری نظر رکھنے والے اور 'بنگال کے مسلمان' نام کی کتاب کے مصنف صحافی نوراللہ جاوید نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ یونیورسٹی میں ہونے والے بدعنوانیوں کا انکشاف سنہ 2021 میں نہیں بلکہ سنہ 2017 میں ہی ہو چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اتنے دنوں تک حکومت کیوں چپ رہی ہے کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ جبکہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ آ چکی تھی جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج اگر محکمہ اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم نے جانچ کا حکم دیا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے لیکن یونیورسٹی کا ناطقہ کیوں بند کر دیا گیا ہے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ کیمپس کی بجلی کٹنے والی ہے یونیورسٹی میں مختلف طرح کے خدمات انجام دینے والے وینڈروں کے بقایاجات ادا نہیں کیے جا رہے ہیں۔ جز وقتی ٹیچروں گروپ ڈی عملہ کی تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب محکمہ اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے جو افسران ہیں ان کو یونیورسٹی چلانے کا تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی اس محکمے میں کوئی تجربہ کار افسران ہیں جنہیں اعلی تعلیمی دفاتر میں کام کرنے کا تجربہ ہے یہ یونیورسٹی کو بھی مدرسے کے طرح چلا رہے ہیں۔'
- مزید پڑھیں: تابناک ماضی کے حامل ملی ادارے تنزلی کے شکار کیوں؟
- اردو میڈیم کے طلبہ کو نئی راہ دکھاتی تنظیم رہنمائے نسواں کی کہانی
دوسری جانب جانچ میں کچھ مضحکہ خیز سوالات کیے گئے ہیں جس سے ان افسران کی صلاحیت کا پتا چلتا ہے، جیسے پوچھا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کی تقرری کے لیے تحریری امتحان کیوں نہیں ہوا، لائبریری میں موجود کتابوں کو کتنے طلبہ نے مطالعہ کیا ہے۔ دوسری جانب جو لوگ بد عنوانیوں میں ملوث ہیں وہ اس کو لسانی جھگڑے کا رخ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔'