وادی کشمیر میں ہائی رسک پریگنینسی معمالات سے نمٹنے اور مشن کے ایکشن پلان کے اہم موضوع پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے نییشنل ہیلتھ مشن کے اسٹیٹ پروگرام منیجر اور انچارج میٹرنل ہیلتھ ڈاکٹر قاضی ہارون سے خصوصی گفتگو کی۔ ڈاکٹر قاضی ہارون نے واجح کیا کہ ہائی رسک پریگنینسی کس کو کہا جاتا ہے ۔ایسی حاملہ خواتین جو کہ حمل سے پہلے ہی یا حمل کے دوران ہی ہائی بلڈ پریشر،ذیابطیس،پھیپڑوں ،دل یا گردوں کے مسائل ذہنی دباؤ،موٹاپا، ایچ آئی وی اور خون کی کمی یعنی اینمیا وغیرہ میں مبتلا ہوں ایسی خواتین کو ہائی رسک پریگنینسی مریض کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر قاضی ہارون نے کہا کہ ہائی رسک حاملہ خواتین کو اچھی دیکھ بھال اور بہترین طبی سہولیات کے حوالے سے مشن کئی اہم منصوبوں پر کام کررہا ہے۔مذکورہ خواتین کو باقی حاملہ خواتین کے مقابلے میں خاص خیال رکھا جارہا ہے۔تاکہ زچہ اور بچہ دونوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تمام ضلع اور سب ضلع دواخانوں میں حاملہ خواتین کے لیے معیاری طبی سہولیات دستیاب کروائی گئی جبکہ نوزائدہ اور ماں کی صحت کا خاص خیال رکھنے کے لیے اور کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ٹیسٹنگ سے لے کر علاج تک انتظام کیا گیا۔مزید بتایا کہ حاملہ ہونے کے بعد سے ہی تمام اضلاع میں آشا ورکرز اور دیگر طبی عملہ گھر گھر جاکر ایسی خواتین کی کونسلنگ کرتی ہیں اور انہیں طبی جانچ کروانے کے لیے بھی وقتا فوقتا یاد دہانی کرواتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر قاضی ہارون نے ایک سوال کے جواب میں کہا اس حوالے سے ہم کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے اور گزشتہ برسوں کا جب موازنہ کیا جائے تو شرح اموات میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ڈاکٹر قاضی ہارون کا کہنا ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہائی رسک حاملہ کو 9 سے زائد طبی جانچ عمل میں لائے جائے۔لیکن اب اس عمل کو 9 سے بھی بڑھا کر 14 مرتبہ کیا جارہا ہے۔ ملک کی ترقیاتی ریاستوں میں مذکورہ خواتین کی جانچ 9 ماہ کے دوران 14 سے 16 مرتبہ کی جاتی ہیں۔اسی کو مدنظر رکھ کر اب جموں وکشمیر میں بھی ہائی رسک حاملہ خواتین کی طبی چانچ کو 9 سے 16 مرتبہ کرنے کے منصوبے پر کام کیا جارہا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران ملک بھر کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی قدرتی طریقے سے زچگی کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔جبکہ آپریشن کے ذریعے ہونی والی زچگی میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔آج کل ولادت کے جتنے بھی کیسز ہورہے ہیں وہ زیادہ تر آپریشن کے ذریعے عمل میں لائے جارہے ہیں۔یہ بڑھتا رجحان سرکاری اسپتالوں میں کچھ حد تک کم نظر آرہا ہے، لیکن اکثر نجی نرسنگ ہومز میں بنا آپریش کے زچگی ممکن ہی نہیں ہوپاتی ہے۔
ڈاکٹر قاضی ہارون نے کہا کہ آپریشن کے ذریعے زچگی کے رجحان کو کم کرنے اور قدرتی طریقے سے زچگی عمل میں لانے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہونا ہوگا۔ تاہم آپریشن سے کی جانی والی زچگی کے مضر اثرات اور قدرتی طور پر بچے کو جنم دینے سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کونسلنگ کا بھی سہارا لیا جارہا ہے، تاہم اس کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔