ETV Bharat / state

Anti Encroachment Drive in JK جموں و کشمیر میں تجاوزات ہٹانے کے معاملے پر سپریم کورٹ سماعت کے لیے تیار

author img

By

Published : Jan 16, 2023, 12:33 PM IST

Updated : Jan 16, 2023, 2:28 PM IST

جموں و کشمیر میں ڈپٹی کمشنروں کو 31 جنوری سے پہلے سرکاری اراضی سے غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ Supreme Court on JK Removal of Encroachment

سپریم کورٹ سماعت کے لیے تیار
سپریم کورٹ سماعت کے لیے تیار

نئی دہلی: جموں و کشمیر میں 31 جنوری سے پہلے سرکاری اراضی سے غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے جلد سماعت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ( سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ وہ چیمبر میں غور کریں گے اور تاریخ طے کریں گے۔ درحقیقت جموں و کشمیر کے ڈپٹی کمشنروں کو 31 جنوری سے پہلے سرکاری زمین سے غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 31 جنوری تک روشنی اور کاہچرائی سمیت سرکاری اراضی سے 100 فیصد تجاوزات کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔ ایڈووکیٹ مظفر خان نے سپریم کورٹ میں اس معاملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی جلد سماعت کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری انتظامیہ نے سبھی اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ رواں ماہ کے آخر تک سرکاری اراضی بشمول روشنی ایکٹ کے تحت قبضہ میں لی گئی اراضی اور کاہچرائی سے 100 فیصد تجاوزات کے خاتمے کو یقینی بنائیں۔ انتظامیہ نے ضلع ترقیاتی کمشنرز کو اس ضمن میں تعمیلی اور تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت جاری کی تھی اس کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سمیت مقامی لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔

قابل ذکر ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی حکومت نے زمین کے متعلق قوانین تبدیل کیے ہیں اور غیر مقامی لوگوں کو بھی یہاں زمین خریدنے کے حقوق دیے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انتظامیہ نے سرکاری زمین اور روشنی لینڈ کی نشاندہی کرکے اس کو اپنی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس اراضی پر صنعت کاری، رہاشئی کالونیاں بنانے کے منصوبوں کے متعلق بات کی گئی ہے۔ زمین کو واپس لینے کے فیصلے کے بعد سے وادی کے علاوہ جموں میں بھی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

یاد رہے کہ سنہ 2001 میں، جموں و کشمیر حکومت نے ریاستی اراضی کی ملکیت غیر مجاز قابضین کو دینے کے لیے جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ، 2001 جسے روشنی ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے نام سے ایک قانون نافذ کیا تھا۔ تاہم، اکتوبر 2020 میں، جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے جسٹس گیتا متل اور راجیش بندل کی ڈویژن بنچ نے اس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس کے تحت کیے گئے تمام اقدامات یا اس کے تحت کی گئی ترامیم کو بھی غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا تھا۔

بنچ نے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کو روشنی اراضی معاملے کی جانچ کا بھی حکم دیا تھا۔ جموں و کشمیر انتظامیہ نے روشنی اراضی معاملے کو جموں و کشمیر کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ قرار دیا۔اس کے بعد انتظامیہ نے اس فیصلے پر محدود حد تک نظرثانی کے لیے ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ جہاں اس فیصلے نے غیر آئینی روشنی ایکٹ کے نفاذ کو روک کر قانون کی حکمرانی کو بحال کیا، وہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ اس فیصلے سے عام لوگوں کی بڑی تعداد کو غیر ارادی طور پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں : Shahid Saleem حکومت کشمیری عوام کے حقوق کی پامالی بند کرے، شاہد سلیم

نئی دہلی: جموں و کشمیر میں 31 جنوری سے پہلے سرکاری اراضی سے غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے جلد سماعت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ( سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ وہ چیمبر میں غور کریں گے اور تاریخ طے کریں گے۔ درحقیقت جموں و کشمیر کے ڈپٹی کمشنروں کو 31 جنوری سے پہلے سرکاری زمین سے غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 31 جنوری تک روشنی اور کاہچرائی سمیت سرکاری اراضی سے 100 فیصد تجاوزات کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔ ایڈووکیٹ مظفر خان نے سپریم کورٹ میں اس معاملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی جلد سماعت کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری انتظامیہ نے سبھی اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ رواں ماہ کے آخر تک سرکاری اراضی بشمول روشنی ایکٹ کے تحت قبضہ میں لی گئی اراضی اور کاہچرائی سے 100 فیصد تجاوزات کے خاتمے کو یقینی بنائیں۔ انتظامیہ نے ضلع ترقیاتی کمشنرز کو اس ضمن میں تعمیلی اور تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت جاری کی تھی اس کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سمیت مقامی لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔

قابل ذکر ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی حکومت نے زمین کے متعلق قوانین تبدیل کیے ہیں اور غیر مقامی لوگوں کو بھی یہاں زمین خریدنے کے حقوق دیے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انتظامیہ نے سرکاری زمین اور روشنی لینڈ کی نشاندہی کرکے اس کو اپنی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس اراضی پر صنعت کاری، رہاشئی کالونیاں بنانے کے منصوبوں کے متعلق بات کی گئی ہے۔ زمین کو واپس لینے کے فیصلے کے بعد سے وادی کے علاوہ جموں میں بھی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

یاد رہے کہ سنہ 2001 میں، جموں و کشمیر حکومت نے ریاستی اراضی کی ملکیت غیر مجاز قابضین کو دینے کے لیے جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ، 2001 جسے روشنی ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے نام سے ایک قانون نافذ کیا تھا۔ تاہم، اکتوبر 2020 میں، جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے جسٹس گیتا متل اور راجیش بندل کی ڈویژن بنچ نے اس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس کے تحت کیے گئے تمام اقدامات یا اس کے تحت کی گئی ترامیم کو بھی غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا تھا۔

بنچ نے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کو روشنی اراضی معاملے کی جانچ کا بھی حکم دیا تھا۔ جموں و کشمیر انتظامیہ نے روشنی اراضی معاملے کو جموں و کشمیر کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ قرار دیا۔اس کے بعد انتظامیہ نے اس فیصلے پر محدود حد تک نظرثانی کے لیے ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ جہاں اس فیصلے نے غیر آئینی روشنی ایکٹ کے نفاذ کو روک کر قانون کی حکمرانی کو بحال کیا، وہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ اس فیصلے سے عام لوگوں کی بڑی تعداد کو غیر ارادی طور پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں : Shahid Saleem حکومت کشمیری عوام کے حقوق کی پامالی بند کرے، شاہد سلیم

Last Updated : Jan 16, 2023, 2:28 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.