پانچ ججز جسٹس این وی رامانہ، ایس کے کول، آر سبہاش ریڈی، بی آر گاوئی اور سوریا کانت پر مشتمل بینچ نے بدھ کے روز درخواستیں سنی۔ یہ عرضیاں 5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد داخل کر دی گئیں تھیں۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے 5 اگست کو جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرکے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا۔
اس فیصلے کے بعد کانگریس رہنما غلام نبی آزاد، سابق آئی اے ایس افسر ڈاکٹر شاہ فیصل، سماجی کارکن شہلا رشید، کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انورادھا بھسین اور کئی لوگوں نے دفعہ 370 کو ختم کیے جانے کو چیلنج کیا اور سپریم کورٹ میں عرضیاں داخل کر دی۔
رواں ماہ کی 10 تاریخ کو سپریم کورٹ میں چند عرضیوں کی سماعت ہوئی تھی جس دوران سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح انداز میں کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی لگانا مناسب نہیں ہے۔ یہ جمہوری ملک ہے، یہاں ہم کسی کو اس طرح نہیں رکھ سکتے۔
عدالت عظمی کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پر پابندی اظہار رائے پر پابندی لگانے کے مترادف ہے۔ لوگوں کے حقوق نہیں چھینے جانے چاہیے۔ سات دنوں کے اندر دفعہ 144 پر جائزہ لیا جانا چاہیے۔ حکومت کی دلیلوں کو سپریم کورٹ نے خارج کیا۔ کہیں بھی 144 لگائی جائے تو اسے غیر معینہ نہیں کیا جاسکتا۔ غیر معمولی حالات میں ہی اس کا نفاذ کیا جاسکتا ہے۔اس دفعہ کا استعمال بار بار نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو اس پر واضح موقف پیش کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے پری پیڈ موبائل سروس بحال کیا گیا اس کے علاوہ شمالی ضلع بانڈی پورہ اور کپوارہ میں چند مخصوص ویب سائٹس استعمال کرنے کے لیے 2 جی انٹنرنیٹ سروس بحال کیا گیا۔