سرینگر: کشمیر کے معروف شاعر اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پروفیسر رحمان راہی کا سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر انتقال ہوا۔ وہ اٹھانوے برس کے تھے۔ ان کی وفات سے کشمیر ایک اعلیٰ پایہ کے شاعر، دانشور اور موجودہ تاریخ کے حساس ترین چشم دید گواہوں سے محروم ہوگیا۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری کے صدر کی حیثیت سے طویل تدریسی کیریر کے بعد پروفیسر راہی، ہمہ وقت شاعری اور تصنیف کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان کے گھریلو ذرائع کے مطابق انہوں نے وچار ناگ صورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر سکون کے ساتھ آخری سانس لی۔ Poet and Gyanpeeth Awardee Prof Rehman Rahi Passes Away
پروفیسر رحمان راہی کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی وادی کے ادبی حلقوں کے افق پر مایوسی اور ماتم کے گہرے بادل سایہ فگن ہوگئے اور سوشل میڈیا کی فیس بک اور ٹویٹر سائٹوں پر قلمکاروں اور صحافیوں کی طرف سے تعزیتی پیغامات اور مرحوم کے ساتھ یادگار لمحات کی تصویریوں کا سیلاب امڈ آیا۔
نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نائب صدر اور سابق وزیر عمر عبداللہ نے اپنے ایک بیان میں شہرہ آفاق شاعر ، نقاد اور دانشور پروفیسر رحمان راہی کے انتقالِ پُرملال پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے جملہ سوگوران کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا اور مرحوم کی جنت نشینی اور بلند درجات کے لئے دعا کی۔Farooq Abdullah condolences on Rahman Rahi
دونوں لیڈران نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’راہی صاحب نے اپنے منفرد اور لاثانی شاعری اور پُراثر کلام سے اہل کشمیر کے دلوں میں جگہ بنائی ہے انہوں نے نے یہاں کے ریشیانِ کرام اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چل کر اپنی مادرِ زبان کشمیری کو آخری دم تک دوام بخشا‘۔
انہوں نے کہا کہ مرحوم کو شاعر اور نقاد کی حیثیت سے کشمیری زبان اور ادب کو گہرے انداز میں آبیاری کرنے کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
دونوں لیڈروں نے راہی صاحب کی موت کو ایک دور کے خاتمے کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی ادبی دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔
جموں کشمیر کے لیفٹینٹ گورنر منوج سنہا نے رحمان راہی کے انتقال پر صدمے کا اظہار کہا ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے انتقال سے ایک ادب و علم کا ایک دور اختتام ہوا۔ایل جی منوج سنہا نے ٹویٹ کرکے لکھا کہ رحمان راہی کشمیری زبان کے سب سے بااثر شاعروں میں تھے جن کے انتقال کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔ LG Manoj Sinha Condolences On Prof Rehman Rahi Death
دریں اثنا پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ایک ٹویٹ میں مرحوم شاعر کے انتقال پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’عظیم ادبی ہستی اور گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ قلمکار جناب رحمان راہی صاحب کے انتقال کی خبر سن کر گہرا صدمہ ہوا‘۔
انہوں نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا کہ ’ان کے انتقال سے کشمیری ادب اور معاشرے میں ایک خلا پیدا ہوا جس کا پر ہونا مشکل ہے پسماندگان کے ساتھ تعزیت پیش کرتی ہوں‘۔Mehbooba Mufti Tweet On Rehman rahi Death
دریں اثنا سی پی آئی (ایم) کے سینئر لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ’رحمان راہی کشمیری ادب کے ایک درخشاں ستارے تھے انہوں نے مختلف اصناف سخن میں اپنی مثالی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کی تخلیقات کشمیر کے ثقافتی و سیاسی نشیب و فراز کی عکاسی کرتی ہیں جن سے نوجوان تخیلق کار ہمیشہ متاثر ہوتے رہیں گے، پسماندگان کے ساتھ تعزیت و تسلیت‘۔Tarigima On Rehman Rahi Death
پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے رحمان راہی کے انتقال پر ٹویٹ کرکے بتایا کہ" کشمیری ادب اور شاعری کی نامور شخصیت پروفیسر رحمان راہی صاحب انتقال کر گئے۔ ایک ممتاز شاعر اور ادبی شخصیت۔اللہ جنت عطا فرمائے"
جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ "کشمیری ادب اور شاعری میں جموں و کشمیر کی نامور شخصیت پروفیسر رحمن راہی صاحب کے انتقال پر میرا گہرا تعزیت۔ یہ معاشرے کا اجتماعی نقصان ہے۔ میں ان کی روح کو سکون اور ان کے خاندان کے لیے طاقت کی دعا کرتا ہوں۔"
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ شعبہ کے جملہ اسٹاف ممبران و طلبہ پروفیسر رحمان راہی کے انتقال پر انتہائی غمزدہ ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ کشمیری زبان و ادب کے تئیں مرحوم کے شاندار کنٹریبیوشن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔Kashmir University Condolences Massage
مزید پڑھیں: Prof. Rehman Rahi Passes Away کشمیری ادب کے ایک دور کا خاتمہ، پروفیسر رحمان راہی کا انتقال
جموں کشمیر اردو کونسل نے پروفیسر رحمان راہی کے انتقال پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ پریس کے نام جاری بیان میں کونسل نے بتایا کہ پروفیسر رحمان راہی کشمیری شاعری میں وہی درجہ رکھتے تھے جو اردو زبان میں غالب کو حاصل ہے۔ کشمیری زبان کی تحریر میں ان کے سکرپٹ کی زیادہ پیروی کی جاتی ہے۔
اردو کونسل کے جملہ ارکان بشمول صدر، و نائب صدور ان کے انتقال پر غمزدہ ہیں اور لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی انہیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
معروف شاعر علی شیدا نے اپنے ایک پوسٹ میں مرحوم شاعر کو خراج عقیدیت پیش کرتے ہوئے کہا: ’کشمیری زبان و ادب کے سرخیل جنہوں نے ایک تاریخ رقم کر دی اور اپنے پیچھے ایک ایسی راہ تعمیر کرکے چھوڑ دی جو صدیوں تک ادب اور لسانیات کے مسافروں کو اپنے منازل طے کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوگی‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’راہی صاحب اپنے لئے راہی تھے مگر کشمیری ادبا و شعرا کے لئے ایک رہبر بن کر انہیں نئی منزلوں کی اور گامزن ہونے ے راستے متعین کرتے رہے‘۔
وہیں جموں وکشمیر کی جملہ چھوٹی بڑی ادبی تنظیموں نے پروفیسر رحمان راہی کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔